Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نصف صدی گزارنے والے تارکین کی واپسی

 آج سعودی اس قابل ہوگئے ہیں کہ اپنا ملک خود چلا سکیں تو انہیں اب غیر ملکیوں کی ضرورت نہیں رہی
عبد الستارخان
سعودی عرب نے جب غیرملکیوں کے مرافقین پر فیس عائد کی اور اس کا باقاعدہ اعلان ہوا اور پھر کچھ عرصے  بعد مرافقین اور تابعین کی خوش فہمیاں دور ہوگئیں اور یقین ہوگیا کہ یہ کڑوا گھونٹ ہر اس شخص کو پینا ہے جس کے ساتھ اس کی فیملی مقیم ہے ، اس وقت میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی تھی جو  ایک سوال تھا کہ مرافقین پر فیس لاگو ہونے کے بعد اب آپ کیا کریں گے؟  اس پر  لوگوں نے مختلف جوابات دیئے اور سوال در سوال کا سلسلہ چل نکلا۔ بحث کے دوران ایک اور سوال پیدا ہوا کہ جن لوگوں نے ساری عمر سعودی عرب میں گزاری، ان کی تیسری نسل یہاں جوان ہورہی ہے، پاکستان میں نہ گھر بنایا ، نہ بینک بیلنس ہے نہ کوئی کاروبار ہے ، نہ  وہ پاکستان کو ٹھیک طرح سے جانتے ہیں نہ ہی ان کے  وہم وگمان میں تھا کہ  وہ کبھی پاکستان جائیں گے،  وہ کیا کریں؟ اس پر بھی مختلف  دوستوں نے مختلف جوابات دیئے مگر ایک جواب ایسا تھا جو نہ صرف سخت تھا بلکہ حقیقت کے قریب تر بھی۔ یہ  جدہ میں ہمارے  دوست سید ظفر بخاری کا جواب تھا جنہوں نے لکھا: وہ  روزانہ صبح اٹھ کر اپنے سر پر 7جوتے لگایا کریں جنہوں نے اتنے عرصے میں اپنے مستقبل کے لئے کچھ نہ کیااور غفلت میں پڑے رہے۔
مزید پڑھیں:غیرملکیوں پر ماہانہ فیس کانفاذ ، مثبت اور منفی پہلوکیا ہیں؟
چند دن قبل میرے  دو قریبی رشتہ دارسعودی عرب کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر وطن واپس چلے گئے۔پہلے ان دو میں سے مجھ سے زیادہ قریبی عزیز کی کہانی سنیں۔ جب جدہ آئے تھے  تو ان کی عمر 10سال ہوگی۔ یہ 1965ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا۔ یہیں پلے بڑھے، یہیں تعلیم حاصل کی، یہیں اپنی کزن سے شادی  ہوئی اور   بچے ہوئے۔ اچھی جگہوں پر ملازمت کی اور خوب پیسے بھی کمائے اور منڈکے اڑا بھی دیئے۔ آج ان کے بیٹوں کے بیٹے بھی یہیں جوان ہورہے ہیں۔ سعودی عرب کو  اپنی عمر عزیز کے 53بہاریں دے کر ، جوانی  اور توانیاں دے کر اپنا بڑھاپا، ضعیفی، کمزوری اور بیماری لے کر واپس چلے گئے۔ دیگرقدیم تارکین کے مقابلے میں ان کے ہاں ایک خوبی ہے جس کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔  وہ یہ کہ اس عرصے کے  دوران انہوں نے کراچی میں ایک 120گزکا فلیٹ خریدا تھا۔  اور ہاں! چند لاکھ  اکاؤنٹ میں بھی ہوں گے۔ یہی کوئی 10،20لاکھ۔  میرا مطلب ہے کہ  بخاری صاحب کے نسخے  پرشاید فٹ نہ آتے ہوں ۔
مزید پڑھیں :قطر: دوغلی پالیسیاں اور تضادات کا مجموعہ
دوسرے عزیز کی سعودی عرب آمد کا زمانہ  1970ء کے لگ بھگ تھا۔یہاں آکر شاہی خاندان کے ایک معزز فرد کے  ہاں لگ گئے۔ خوب پیسہ کمایا، یہیں شادی کی، یہیں بچے ہوئے اور آج بچوں کے بچے جوان ہورہے ہیں۔ لگ بھگ48سال جدہ میں گزار نے کے بعد    مرافقین اور تابعین کی فیسوں کی وجہ سے وطن واپس جانے پر مجبور ہوگئے مگر پاکستان میں جاکر کہاں رہیں گے؟ ان کا نہ  تو کوئی گھر ہے،  نہ گاؤں میں  زمین ہے، نہ پلاٹ ہے نہ  بینک بیلنس۔ کچھ بھی تو نہیں۔اتنے   عرصے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایک  دن وطن  واپس جائیں گے۔ بخاری صاحب کے نسخے کے مطابق یہی نمونہ شاید فٹ آتا ہو۔
مزید پڑھیں : ٹرمپ کا دورہ، اوباما انتظامیہ کی غلطیوں کا ازالہ
موجودہ حالات میں ایسے  ہزاروں تارکین ہیں جو  نصف صدی سے  سعودی عرب میں ٹھاٹ باٹ سے رہ رہے تھے  اور آج سب کچھ چھوڑ  چھاڑکر   اپنے  وطن واپس ہونے پر مجبور ہیں۔ جدہ  ایئر پورٹ سے پاکستان روانہ ہونے  والی ہر فلائٹ میں آپ کو  اس طرح کے نمونے ملیں گے جنہوں نے کئی دہائیاں یہاں گزاری ہیں  اور آج حالات نے ان کو مجبور کردیا کہ  وہ  واپس  چلے جائیں۔ آپ  جدہ قونصلیٹ کا کسی بھی دن  دورہ کریں،  وہاں آپ کو  ایسے کئی نمونے ملیں گے۔  ایسی مخلوق جس کا پاکستان سے  رشتہ  صرف اتنا ہے کہ  انہیں اقامہ تجدید کرنے کیلئے پاسپورٹ کی ضرورت ہے  اور پاسپورٹ تجدید کرنے کیلئے شناختی کارڈ چاہئے۔  اس کے  علاوہ ان کا  اپنے مادر وطن سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے آباء  واجداد  نصف صدی قبل سعودی عرب آئے اور  اقامہ لے کر یہیں آباد  ہوگئے۔ 
انہیں نصف  صدی قبل کئے گئے "جرم" کی   سزا مل رہی ہے۔  سزا اس بات کی کہ تب انہیں انتہائی خلوص سے کہا گیا کہ سعودی شہریت لے لیں مگر  انہوں نے اس خلوص کی قدر نہ کی اور پیشکش ٹھکرادی۔ آج اپنے کئے کی سزا پارہے ہیں۔ سعودی عرب میں رہنے والے تارکین اس بھول میں دہائیاں گزار بیٹھے کہ  یہ  ان کا وطن نہیں۔  یہ سعودیوں  شہریوں کا ملک ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کے شہری اس قابل نہیں تھے کہ ملک کا کاروبار سنبھالتے تو اس ملک کو غیرملکیوں کی ضرورت تھی۔ آج  وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ  اپنا ملک خود  چلا سکیں  تو انہیں اب غیر ملکیوں کی  خاطر خواہ  ضرورت نہیں رہی۔ یہ  ہماری اپنی غلطی ہے کہ یہاں اس شان سے رہے کہ گویا ہماری یہ مستقل اقامت گاہ ہے ۔ ہم نے پلٹ کر اپنی سرزمین پر پاؤں نہیں رکھنااسی وجہ سے مستقبل کیلئے   اپنے وطن میںکوئی  انتظام  نہیںکیا۔ خوب کمایا اور منڈ کے خرچ بھی کیا۔ ساری توانیاں اور بھرپور جوانی اس ملک کو  دیدی اور اب بڑھاپالے کر  وطن    واپس جارہے ہیں  تو اس حال میں پردیس میں گزرنے والے ایک ایک دن اور فضول خرچ کئے  جانے والے ایک ایک ریال پر افسوس ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:بئر الخاتم ، انگشتری نبی کا آخری مقام
سعودی عرب نے اگر مرافقین پر فیس عائد کی ہے  تو اس پر کیا شکوہ ۔ ایمانداری سے بتائیں کہ اگر یہ فیس عائد نہ ہوتی اور معاملات اس قدر تنگ نہ ہوتے تو کیا نصف صدی سے یہاں بسنے  والے لوگ واپس جاتے، یقینا مزید نصف صدی بھی گزارنے کیلئے تیار ہوں گے اگر انہیں عمر مل گئی۔ جن  دو عزیزوں کا حوالہ میں نے دیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیچھے  رہ جانے والے ان کے بچوں کو اس پورے  واقعہ سے کوئی سبق ملا ہے، کیا انہیں اب  یقین ہوگیا  ہے کہ یہ ان کا ملک نہیں بلکہ ان کا ملک پاکستان ہے جہاں انہیں بھی ایک  دن واپس  جا کر بسناہے   اور انہیں وہاں کیلئے آج کچھ کرنا ہے،  میرا خیال ہے کہ بیشتر کو  ابھی تک سبق نہیں ملا۔  اگر  وہ حالات کا  مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے تو مقابلہ کرتے رہیں گے  ورنہ  وہ بھی ایک  دن اسی طرح مفلوک الحال واپس چلے جائیںگے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ آنے والے چند سال غیرملکیوں کیلئے رخصتی کے سال ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے ملک میں اپنا مستقبل بنالیا ہے  وہ وقت ضائع نہ کریں اور جن لوگوں نے ابھی تک نہیں بنایا اور ’’آنے والا کل زیادہ بہتر ہوگا‘‘ کی آس میں بیٹھے ہیں انہیں  ظفر بخاری صاحب کا نسخہ  یاد  رکھنا ہوگا۔
مزید پڑھیں : سعودی عرب میں پیدا ہونے والے غیر ملکیوں کے مسائل
 
 
 

شیئر: