Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہ اور مات کا کھیل

معصوم مرادآبادی
سیاست بنیادی طورپر شہ اور مات کا کھیل ہے۔ جب آپ کے سیاسی مخالفین قدم قدم پر آپ کو مات دینے کیلئے پرتول رہے ہوں تو پھونک پھونک کر قدم رکھنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔یوں تو جب سے عام آدمی پارٹی وجود میں آئی ہے تب سے وہ اپنے مختلف سیاسی ایجنڈے کے سبب سیاسی مخالفین کے نشانے پر ہے اوروہ اسے کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیاں عام آدمی پارٹی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہیںاور دونوں کی کوشش یہی ہے کہ وہ اس سیاسی تجربے کو پوری طرح ناکام ثابت کردیں تاکہ انکی راہ آسان ہوسکے۔ 
عام آدمی پارٹی کی سرکار نے راجدھانی دہلی میں اپنی کارکردگی اور عوام دوست فیصلوں سے جو مقبولیت حاصل کی ہے وہ اس کے سیاسی مخالفین کیلئے مسلسل پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے اپنی ناتجربے کاریوں سے اپنے لئے کچھ ایسے مسائل بھی پیدا کئے ہیں جن کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے 20ممبران اسمبلی کو نااہل قرار دیئے جانے کا فیصلہ اسی ناتجربے کاری کا نتیجہ ہے۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے 20ممبران اسمبلی کو پارلیمانی سیکریٹری کے عہدے پر فائز کرکے جو غلطی کی تھی اسکا خمیازہ اسے اب بھگتنا پڑا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری کا عہدہ بنیادی طورپر منفعت والا عہدہ ہے اور قانونی ضابطوں کے تحت کسی بھی قانون ساز ادارے (پارلیمنٹ یا اسمبلی) کا ممبر کسی ایسے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا جہاں اسے مالی منفعت (تنخواہ یا دیگر الاؤنس ) حاصل ہوتی ہو۔ایسا کرنے کی صورت میں اس کی پارلیمنٹ یا اسمبلی کی رکنیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ 
2015 میں زبردست اکثریت سے حکومت سازی کے بعد عام آدمی پارٹی نے اپنے20ممبران اسمبلی کو پارلیمانی سیکریٹری نامزد کیاتھا۔ عام آدمی پارٹی کے سیاسی مخالفین نے اس معاملے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کردیا اور مذکورہ ممبران اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔ الیکشن کمیشن نے طویل غوروخوض کے بعد گزشتہ ہفتے ان 20ممبران اسمبلی کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور ان کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے کی سفارش صدرجمہوریہ کے پاس بھیج دی۔ صدرجمہوریہ نے بلاتاخیر اتوار کی چھٹی ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن کی سفارش پر اپنی مہر لگادی اور 20ممبران اسمبلی نااہل قرار دے دیئے گئے۔
عام آدمی پارٹی نے اس فیصلے کو غیر دستوری اور جمہوریت کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل پارٹی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن صدرجمہوریہ کا فیصلہ آنے کے بعد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی عرضی واپس لے لی گئی۔ اگر عام آدمی پارٹی کو سپریم کورٹ سے بھی راحت نہیں ملی تو ان 20ممبران اسمبلی کے حلقوں میں دوبارہ انتخابات ہوں گے اور بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کو مات دینے کیلئے اپنی تمام طاقت جھونک دیں گی۔ چونکہ ان دونوں ہی پارٹیوں کے سامنے دہلی میں اپنی سیاسی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ 
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمانی سیکریٹری نامزد کرنے میں احتیاط نہ برتنے کا خمیازہ عام آدمی پارٹی کو بھگتنا پڑا ہے۔ عام آدمی پارٹی اپنے حق میں ماضی میں پارلیمانی سیکریٹری رکھنے کی روایات کا حوالہ دیتی رہی ہے۔ یہ دلیل کسی حد تک درست ہے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ۔ یہ درست ہے کہ ممبران اسمبلی کو خوش رکھنے کیلئے تمام صوبائی حکومتیں انہیں پارلیمانی سیکریٹری یا اسی طرح کا عہدہ دیتی رہی ہیں۔ کئی بار عدالتوں نے ان نامزدگیوں کو خارج بھی کیا ہے۔ پنجاب، مغربی بنگال ، آندھراپردیش سمیت کئی صوبوں میں اس قسم کے معاملے عدالتوں تک پہنچے ہیں اور حکومتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے لیکن ان سبھی معاملوں میں ممبران کو نااہل قرار نہیں دیاگیا۔ سبھی معاملوں میں صوبائی حکومت ان عہدوں پر نامزدگی کرکے اس سے وابستہ عہدے کو منفعت بخش عہدہ نہیں قرار دیتی اور اس سے متعلق بل اسمبلی سے پاس کرالیتی ہے۔ایسا نہیں کہ کیجریوال سرکار اس قانونی ڈھال سے ناواقف ہے۔ جب عام آدمی پارٹی کے ممبران اسمبلی پر منفعت بخش عہدے کا معاملہ منظرعام پر آیا تھا تو دہلی سرکار نے بھی آناً فاناً اس پارلیمانی سیکریٹری کو منفعت بخش عہدے سے باہر رکھنے کا بل اسمبلی میں منظورکرالیا تھا لیکن صدرجمہوریہ نے اس بل کو خارج کردیا اور اسکے ساتھ ہی یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے راڈارپر آگیا۔
2015 میں جب وزیراعظم نریندرمودی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا تو انہیں راجدھانی دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ وزیراعظم نریندرمودی کی دھواں دھار انتخابی مہم کے باوجود 70رکنی دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی نے 67نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور بی جے پی کو سارے گھوڑے کھولنے کے باوجود محض 3سیٹیں ہی حاصل ہوئی تھیںجبکہ کانگریس بدترین شکست سے دوچار ہوئی تھی اور دہلی میں پہلی بار اس کا کھاتہ بھی نہیں کھلا تھا۔ یہ وہی کانگریس تھی جو گزشتہ 15سال سے دہلی کے سیاہ وسفید کی مالک بنی ہوئی تھی۔
بی جے پی کو دہلی میں اپنی شرمناک شکست اس لئے ہضم نہیں ہوئی کہ وزیراعظم کی ناک کے نیچے بی جے پی چناؤ ہار گئی۔ تب سے ہی بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کی سرکار کے درمیان شہ اور مات کا کھیل جاری ہے۔ اپنی شکست کا انتقام لینے کیلئے بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کی راہ میں کانٹے بچھانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ دہلی حکومت کے بہت سے کلیدی شعبے مرکز کے پاس ہونے کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان اختیارات کی لڑائی ایک زبردست کھینچ تان میں تبدیل ہوگئی۔ وزیراعلیٰ اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان رسہ کشی روز کا معمول بن گئی اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے۔ عام آدمی پارٹی کی طرف سے دہلی میں بجلی، پانی ، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں اٹھائے گئے بعض اقدامات کی وجہ سے عوام کو زبردست راحت ملی جس سے عام آدمی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن روز روز کی رسہ کشی نے عوام میں بے زاری بھی پیدا کردی۔ ادھر عام آدمی پارٹی کی اندرونی لڑائی اور آپسی چپقلش نے بھی پارٹی کو نقصان پہنچایالیکن عوام میں آج بھی عام آدمی پارٹی کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ نااہل قرار دیئے گئے 20ممبران اسمبلی کی سیٹوں پر دوبارہ چناؤ ہوئے تو اس میں عام آدمی پارٹی کو ہی زیادہ فائدہ ہوگا تاہم یہ ضمنی انتخاب اس اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہوگا کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کیلئے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگادیں گی۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں