Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صلہ رحمی اور اسکے دنیوی واخروی ثمرات

 صلہ رحمی کرنیوالا وہ نہیں جو اپنی صلہ رحمی پر بدلہ چاہنے والا ہو ، صلہ رحمی کرنیوالا تو وہ ہے کہ جب اسکے رشتہ دار اس سے تعلق کو توڑیں تو وہ ان کے ساتھ تعلق کو جوڑے

 

* * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * *
گزشتہ سے پیوستہ
    جب بندۂ مؤمن اخلاص کامل سے واصل(جوڑنے والا) ہوگا ، وہ ایک جانب سے صلہ رحمی کا پورا مظاہرہ کرنے والا ہوگا، تو یقینا  دوسری جانب  اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام کے مطابق اسے باری تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور تائید ہر قدم پر حاصل رہے گی۔
    حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے اقارب ہیں، میں ان سے جوڑ پیدا کرتاہوں ، مگر وہ مجھ سے توڑتے ہیں، میں ان پر احسان کرتاہوں مگر وہ مجھ سے بدی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتا ہوں مگر وہ مجھ سے جہل وجفا سے پیش آتے ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا :
    ’’اگریہی حال ہے جو تم نے بیان کیا ہے، تو تُو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتاہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تُو اس حالت پر رہے گا ۔‘‘( مسلم )۔
    اب غور کریں کہ آپ کسی رشتہ دار کو اُس کے اپنے ساتھ برے سلوک کی کیا سزادے سکتے ہیں؟کچھ بھی نہیں ، مگر جو سزا ان کیلئے غیبی طورپر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کس قدر شدید ہے کہ آپ کے حسن معاملہ پر انہیں ان کی بدسلوکی پر جو اَلم ہوگا وہ ایسا ہے جیسا گرم ریت نگلنے والے کو پہنچتاہے ۔
    تامل کیجئے یہ احسان کرنے والا تو برابر احسان کررہاہے ۔اپنی طرف سے اس محسن نے اپنے ارحام واقارب کو کوئی تکلیف نہ دی  مگر قاطع( توڑنے والوں کو ان کی قطع رحمی کے گناہ کے ساتھ ساتھ کیسی اذیت اور سزا جناب باری تعالی ٰکی طرف سے مل رہی ہے۔
    دراصل مؤمن بندہ جب اللہ ورسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی بتائی ہوئی غیبی جزاء وسزا کے نظام کو قوت ایمانی سے تسلیم کرلیتاہے تو اسے خود کو اپنے حسن سلوک پر اطمینان وسکون ہی ملتارہتاہے اور وہ رشتہ داروں کی بدسلوکی پر ان سے قطع رحمی نہیں کرتا، نہ صلہ رحمی سے باز رہتاہے ، نہ ان سے اسے مکافات اور بدلہ وصول کرناہوتاہے ۔اسکے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد انعامات اور نبوی تعلیمات ہی باعث سکون واطمینان رہتی ہے ۔
    پھر وہ کبھی نہ کہے گا کہ میرے رشتہ دار میرے احسان کے اہل نہیں ،کیونکہ وہ تو انکی خاطر ان پر احسان کرتا بھی نہیں ۔اس کے سامنے تو اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیمات ہیں جو اس کیلئے زندگی کے ہر موقف اور ہر موڑ پر’’ روشنی‘‘اور رہنما اصول ہیں ۔
    کس قدر سادہ اور عام فہم ضابطہ ہے جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں ثبت فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو اپنی صلہ رحمی پر بدلہ چاہنے والا ہو ، صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ جب اسکے رشتہ دار اس سے تعلق کو توڑیں تو وہ ان کے ساتھ تعلق کو جوڑے۔‘‘
    گویا مؤمن بندے کی صلہ رحمی اللہ کی خاطر’’ احسان‘‘ اور حسن معاملہ سے عبارت ہے جس میں بدلہ کا محسن کو انتظار نہیں ہوتا ۔ہاں اللہ کی طرف سے اس کی رضا، آخرت کا اجر وثواب ، اس کی نگاہِ بلند کے سامنے ہمیشہ رہتاہے اور قرآن کریم کے اس ارشاد کی یہی تفسیر وتشریح ہے کہ مؤمن اہل دانش وہ ہیں جو ان ارحام اور رشتوں کو اللہ کی خشیت اور یوم ِ حساب کے ڈر سے جوڑتے ہیں۔
    درجات ارحام  (رشتوں کے درجات) اور تعلیمات اسلام :
    صلہ رحمی یعنی رشتوں کو جوڑنا ، اس کی اہمیت تاکید اور مفید اثرات ہم گذشتہ سطورمیں ترتیب دے چکے ہیں ۔
    اب ہم ارحام جو رحم کی جمع ہے، کی بابت کچھ علمی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ ہر بندۂ مؤمن کو کن کن رشتوں اور کن ارحام کو کس حد تک جوڑنے کا اسلام نے پابند بنایا ہے؟کتاب وسنت کی اس باب میں ہدایات کیا ہیں اور اسلام کی نورانی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں؟
    چونکہ آج ہم اپنے ماحول اور معاشرے اور پھر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں جس انتشار کا مشاہدہ کرتے ہیں ، اور جس خود غرضی اور نفسا نفسی کا ہمارا معاشرہ شکار ہے ، جس میں عفو ودرگزر ، ایثار وقربانی، جوکہ خیر امت کا شیوہ اور شعار رہے ہیں ، یہ صفاتِ حمیدہ اس امت میں( الا من رحم اللہ) آج ندرت کی حدتک پہنچ چکی ہیں ۔
    عبادات ،علم وتعلیم اپنی جگہ، مگر ہمارے اندر باہمی رشتوں کے توڑنے کے برے اثرات سرایت کرچکے ہیں ۔ہمیں اپنی زندگی کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے قرآن حکیم کے بیان میں بھی تأمل کرنا چاہئے۔
    قرآن حکیم میں جہاں رشتوں کے جوڑنے کے وصف حمید کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس نے ہمارے اس معاملاتی پہلو کو اس امر سے جوڑ رکھا ہے کہ ہمارا رشتوں کو جوڑنا اللہ کی خشیت اور آخرت کے خوف سے ہو۔
    یہی وہ ایمانی اور قرآنی ہدایت ہے جس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہمیں رشتوں کو جوڑنا چاہئے ۔
    یہ ایمان و یقین ہو کہ ہم جب رشتوں کو جوڑیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی اداکریں گے کیونکہ وہی تو ہمارے لئے اس حکم کے شارع ہیں ، اور اسکے ساتھ ساتھ ہم انسانوں کے حقوق کو بھی اداکریں گے کہ ان سے رشتہ جوڑنا ،یہ ان کا ہم پر شرعی واجب اور حق ہے ۔
    لہذا ارحام سے صلہ قائم نہ کرنا ، اور ان سے قطع تعلق کرنا۔یہ اللہ کی معصیت تو ہے ہی مگر اسکے ساتھ سا تھ یہ ان ارحام کا ہم پر ایسا حق ہے جس کا ہم سے وہ مطالبہ کرنے کے اہل ہیں اور اس دن جس دن کہ ہم میں سے ہر ایک اعمالِ صالحہ کا انتہائی محتاج ہوگا ،اور شدید فقر کی حالت میں ہوگا۔اُس روز قطع تعلق اعمالِ صالحہ کے ضیاع کا باعث بنے گا۔
     قرآن کریم نے اس یوم الحساب کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ اُس روز ہر انسان اپنے برادر سے بھاگے گا، اپنے ماں ،باپ اور بیوی بچوں سے بھاگے گا(یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ)ہر شخص اس روز ایسی حالت میں ہوگا کہ اس کی وہ  حالت اسے دیگر سے بالکل لاپرواہ بنادیگی۔
    یوم الحساب اور آخرت پر یقین (وبالآخرہ ہم یوقنون) کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ یوم الحساب اور آخرت پر یقین کا شعور اصلاحِ حال کااتنا کامیاب ترین نسخہ ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کامیاب اصلاحی نسخہ نہیںہوسکتا اس لئے آخرت کا حساب اور اللہ کی خشیت ان 2 امر کو کبھی بھی ہماری نگاہ سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے ۔
    فرد کی اصلاح ہو یا کرۂ ارض کا موجود فرقت وافتراق ، یا دیگر عمومی انسانی فتنہ وفساد، یہ تمام کا تمام صرف اور صرف آخرت سے غفلت کی وجہ سے ہی ہے۔
    دین نے اسی لئے تو ہمیں انسانی حقوق کی ادائیگی میں اللہ تعالی کی خشیت اور آخرت کے حساب کو بار بار یاد کرایا ہے ۔
    اب ہم اس مقالے کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔لفظ’’ رحم‘‘ یعنی رشتہ ۔ اس لفظ کی جمع (ارحام) یعنی رشتے ہے ۔ اس دنیا میں آنے والا ہر انسان جن انسانی رشتوں کا اس کو سامنا ہے ، اس میں بعض بعض سے زیادہ قریب ہیں ۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:
     ’’واولوا الارحام بعضکم اولی ببعض فی کتاب اللہ‘‘(الاحزاب6)۔
    ’’اللہ کی کتاب میں رشتے ، بعض بعض پر اولی اور اقرب ہیں۔‘‘
    اب ہم اس کی مزید تفصیل کرتے ہیں ۔
    ’’رحم‘‘ ، جس کو جوڑنا بندے کا شرعی واجب ہے ۔اس کے بارے میں اہل علم کے اقوال ہیں۔
    رشتے سے مراد محرم رشتے ہیں ۔
    محرم رشتے کا ضابطہ کیاہے؟
    اس کا ضابطہ یہ ہے کہ 2 شخصوں میں اگر ایک مرد اور دوسری عورت ہو تو ان کے مابین نکاح نہ ہوسکے۔اسے تو محرم ارحام کہتے ہیں جیسے :ماں ، باپ، بھائی ، بہن، دادا، دادی، نانا، نانی۔اور اوپر تک ایسے ہی :بیٹے ، بیٹیاں، بیٹوں کی اولاد، بیٹیوں کی اولاد۔یہ ارحام ذی محرم ہیں ۔
    رہے چچا زاد ، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، تو یہ ارحام محرم نہیں ، کیونکہ ان کے مابین نکاح درست ہے۔کوئی شخص اپنے چچا زاد، پھوپھی زاد ، ماموں زاد اور خالہ زاد سے شادی کرسکتاہے ۔
    بعض اہل علم کا قول ہے کہ جن رشتوں کا جوڑنا واجب ہے ، وہ محرم رشتے ہیں ، غیر محرم کو جوڑنا مستحب ہے واجب نہیں ۔ان رشتوں کو جو ڑنا شرعی واجب اور ان کا قطع حرام ہے۔
    امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک حدیث یہ روایت کی ہے کہ کسی عورت سے شادی کے بعد اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ، پھراس میں یہ بھی اضافہ ہے کہ اگر تم ایسا کروگے ، تو تم قطع رحمی کرنے والے ہوگے۔
    یعنی اگر ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کر رکھی ہے تو وہ دوسری شادی پہلی بیوی کی پھوپھی یا اسکی خالہ سے نہیں کرسکتاجیساکہ بیوی کی بہن سے نکاح حرام ہے ۔ایسے ہی بیوی کی پھوپھی اور خالہ کے ہوتے ہوئے اس کے بھانجے اور بھتیجی سے بھی اس کا نکاح حرام ہوتاہے۔اسے حدیث میں قطع رحمی سے تعبیر کیا گیا ہے اور قطع رحمی محرمات میں سے ہے ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں سے ہے۔ ایسے رشتے کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں قطع رحمی شمار ہوتے ہیں ۔
    رحم اور رشتوں کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ انسان کے انساب میں جتنے بھی رشتے ہیں ، سب کو جوڑنا واجب ہے۔اس میں محرم اور غیر محرم کی شرط نہیں ۔امام قرطبی کا بڑا جامع قول ہے :
     وہ رشتے جنہیں جوڑنا واجب ہے ، وہ 2طرح کے ہیں ایک عام رشتے ہیں اور دوسرے خاص رشتے ۔‘‘
    خاص ارحام وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خیرخواہی ، عدل وانصاف اور تعلقات قائم کرنا اور انہیں نان ونفقہ بھی مہیا کرنا ان کے معاشی حالات کی فکر کرنااور ان کے حالات کو دریافت کرتے رہنا ۔ان سے اگرکبھی کوتاہی یا زیادتی ہوجائے تو انہیں درگزرکرنا ہوتا ہے۔
    بہر حال صلہ رحمی عام ہو یا خاص، یہ اللہ کی رحمت کا اور حضرت رحمت للعالمین کی رحمت کا ایک عظیم مظہر ہے ۔جس پر بیش بہا دنیوی اور اخروی  منافع مرتب ہوتے ہیں ، اس کے بالمقابل قطع رحمی وہ خاص ہو یا عام ہو ، اس پر بھی بہت سے دنیوی اور اخروی مصائب اور اللہ کی  ناراضگیاں مرتب ہوتی ہیں۔
    نسب کے ارحام جن کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے :    واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتاب اللہ(الأنفال 75)۔
    ’’بعض رشتے دار زیادہ قریب ہیں دیگر بعض سے۔‘‘
     غور کریں ۔ہر انسان کے اولین رشتے والے انسان اسکے والدین ہیں ۔ پھر والدین کے والدین ہیں ، اس کی ماں ہے ، پھر ماں کے والدین ہیں ، پھر اس کی اپنی اولاد ، اور اولاد کی اولاد ، نیچے تک ۔پھر اسکے نسبی رشتوں میں اسکے چچا،پھوپھی، ماموں ، خالہ اور ان کی اولادیں ہیں ۔
    صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی سائل نے دریافت کیا کہ میری نیکی کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری ماں ۔اس نے پھر سوال کیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ : تیری ماں۔ اس نے پھر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب میں فرمایا کہ : تیری ماں۔اس شخص نے چوتھی بار سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب میں فرمایا : تیرا باپ۔
    اسی طرح قریبی رشتے ، اس کے بعد جو قریبی رشتے ہوں ۔ یہ اولی الارحام ہیں جو نسبی ہیں ۔
    خاوند کے اقرباء بیوی کیلئے اور بیوی کے اقرباء خاوند کیلئے ارحام نہیں البتہ ان کی اولاد کیلئے وہ ارحام ہوں گے مگر اسلام میں خاوند اوربیوی کے مابین جس حسنِ معاشرت کا حکم دیا ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے رشتوں کی بھی پاسداری کریں اور باہم احسان کریں۔چونکہ خاوند اوربیوی کے مابین حسن معاشرت شرعی مطلوب ہے ، اوران کے مابین الفت ومحبت کی زیادتی کا یہ ذریعہ ہے، کہ وہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا خیال کریں اور ایک دوسرے کے رشتوں کے ساتھ احسان کریں ۔ یہ عمومی خیر کا ذریعہ ہے اور خیر کا ذریعہ بھی بذات خود خیر ہی ہوتا ہے ۔جیسا کہ شر کا ذریعہ بھی بذات خود شر ہوتاہے۔تو حسن لغیرہ اور خیر لغیرہ ، شر لغیرہ کا یہی مطلب ہے۔
    رشتوں کو جوڑنا ، اس کے کئی مظاہر ہوتے ہیں  اور وہ لوگوں کو نظر بھی آنے چاہئیں ۔لوگوں کو محسوس ہوں ۔دیگر ان کا مشاہدہ کریں اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ صلہ رحمی کے تقاضے ہیں کہ ان کا باہم ایک دوسرے کی زیارت کرنا ، میل ملاقات رکھنا، ایک دوسرے کی حاجت کا خیال رکھنا، اگر کوئی بیمار ہو تو باہم تیمارداری کرنا، اگر کوئی حاجت میں ہو تو اس کی حاجت کیلئے فکر مند رہنا۔
    اسے پورا کرنااور ان کی اعانت زکات یا صدقہ سے کرنا، اسکے علاوہ ان کیلئے رشد وہدایت ، نصیحت اور بھلائی کے جس قدرابواب ہیں ،انہیں اختیار کرنا۔قرآن کریم نے بھی اقارب کو نصیحت کرنے کو مقدم رکھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا :وانذر عشیرتک الاقربین ’’ تم اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائو۔‘‘
    بہر حال صلہ رحمی کی کوئی منصوص حد تو متعین نہیں ، مگر مطلقاً صلہ رحمی کا عام حکم ہے ، تو صلہ رحمی کی ہر نوع کو شامل ہے۔ اس کی کوئی بھی مقدار ہو، تو عرف عام میں جو چیز صلہ رحمی سمجھی جاتی ہو، اسے اختیار کیاجائے اور قطع رحمی میں بھی عرف عام کا ہی اعتبار ہوگا۔
    بعض رشتے دارایک ملک میں ہیں اور ان کے دیگر رشتے دار دوسرے ملک میں رہائش پذیر ہیں ۔یا ان کے رہنے کے مقامات ایک دوسرے سے دور ہیں ، تو آج کے اس دور میں صلہ رحمی کے کئی راستے ہیں ۔
    خط وکتابت ایک طریقہ ہے ، پھر آج کے جدید ذرائع مواصلات، اتصالات، میل جول ، ان کے ذریعے باہمی تعلق رکھنا، ایک دوسرے کے حالات دریافت کرنا، صحت وسلامتی اور مرض وغیرہ کے احوال کی خبر گیری کرنا…یہ صلہ رحمی ہی کے مختلف ابواب ہیں ۔ایسے ہی اپنے اقارب کو ہدایا وغیرہ ارسال کرنا ، یہ بھی صلہ رحمی  ہے۔تعطیلات کے مواسم میں ایک دوسرے کی زیارت کیلئے سفر کرنا۔یہ تمام موانست اور صلہ رحمی کے ابواب میں آتاہے۔
(جاری ہے)
 

شیئر: