Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لودھراں … ضمنی انتخاب

***محمد مبشر انوار***
مقابلے کیلئے میدان میں اترے کھلاڑیوں میں سے ،کھیل کے مروجہ اصولوں کے مطابق،کسی ایک کو فتحیاب ہونا ہوتا ہے،جیت کسی ایک کا مقدر ہوتی ہے۔باقی کھلاڑیوں کو ہار کا مزہ چکھنا ہوتا ہے کہ یہی کھیل کا حسن اور دستور ہے۔ پاکستان میں آج کل صرف ایک کھیل اپنے زوروں پر ہے اور اس کے کھلاڑی لنگوٹ کسے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔کچھ پردۂ ا سکرین پر ہیں تو کچھ پس پردہ تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سیاست کے اس کھیل میں ضابطے اور اخلاق کہیں دفن ہو چکے ہیں اور ایک ادارے کو ریفری بنائے اسکے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ،جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ’’اسٹیٹس کو ‘‘کے ماحول کو کیوں چھیڑا جا رہا ہے،اشرافیہ کو من مانی کیوں نہیں کرنے دی جا رہی،ضابطہ اخلاق کی پابندی آج کیوں موضوع سخن ٹھہری ہے،قانون آج کیوں حرکت میں ہے اور وہ بھی ’’ہمارے ‘‘ خلاف(بقول متاثرہ خاندان)جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قانون بلا امتیاز متحرک ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایک فریق کا شور و غوغا اتنا ہے کہ باقیوں کیخلاف ہونے والی کارروائی اس شور میں دبی نظر آتی ہے۔دوسری طرف یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ باقی فریقین کی دہائیاں بھی اس شور میں دبی ہوئی ہیں کہ جس طرح قانون ان کیساتھ برتاؤ کر رہا ہے ،چیخیں مارنے والوں کے ساتھ قانون کا رویہ نسبتاً قدرے نرم نظر آتا ہے،جس کی وجہ سے عدلیہ کی جانبداری براہ راست زد پر ہے ، ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کا بہتر جواب مناسب وقت پرخود عدلیہ ہی دے سکتی ہے۔ 
لودھراں انتخابی میدان اگلے عام انتخابات سے قبل آخری ضمنی انتخاب تھاجس میں مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کی نشست جیتی ہے۔اس کا کریڈٹ یقینی طور پر مقامی مسلم لیگ ن کو جاتاہے ۔دوسری طرف پی ٹی آئی کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں اس مقابلے میں شکست کیوں ہوئی؟مسلم لیگ ن بجا طورپر اپنی کامیابی پر جشن منانے کے حقدار ہے کہ انتہائی مخدوش حالات(بقول مسلم لیگ ن)انہی نے یہ نشست جیتی ہے،جس کے متعلق مسلم لیگ ن کے اکابرین کا یہ قوی خیال تھا کہ اس نشست سے جیتنا انتہائی مشکل ہے ۔پیر اقبال شاہ اور ان کے ساتھیوں نے ،اچھے خاصے مارجن کے ساتھ،ہاتھی سے گنا چھین کر دکھا دیا۔ اس جیت کے بعد ،مسلم لیگ ن کی عدلیہ پر تنقید بلکہ تضحیک میں شدت آ چکی ہے۔ عدالتی کارروائی کے شکنجے میں کسا  شریف خاندان بڑھ چڑھ کر عدلیہ کے معزز جج صاحبان سے سوال کر رہا ہے کہ جب عوام ان کو اہل قرار دے رہے ہیں تو عدلیہ کو قطعی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ انہیں نا اہل قرار دے۔ اس بیانئے کے دو رخ واضح ہیں۔ شریف خاندان نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ عدلیہ عوامی رائے کے احترام میں اپنا فیصلہ واپس لے اور دوسرے رخ کیمطابق عوامی عدالت میں اہل ہونے کے باعث وہ کسی طور بھی قانون کے پابند نہیں یا صرف وہ فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہیں جن میں فیصلہ مسلم لیگ ن کے حق میں آئے۔ تیسرا رخ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری جس کا اظہار کر چکے ہیںکہ میاں نوازشریف گریٹر پنجاب کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں جس کا ثبوت میاں نوازشریف کے اپنے بیانات ہیں ،جن میں وہ لگی لپٹی رکھے بغیر خود کو شیخ مجیب الرحمن سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ان کی صاحبزادی(متوقع قائد مسلم لیگ ن)معزز ججز کے نام لے کر خود کو حسینہ واجدکے طور پر پیش کر رہی ہیں۔پانامہ معاملہ منظر عام آنے کے بعد راقم مختلف تحاریر میں ان خدشات کا اظہار کر چکا ہے کہ ’’مذاق جمہورت‘‘ نامی دستاویز میں عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی خاطر ’’کٹھ پتلیوں‘‘ کو پاکستان پر مسلط کر رکھا ہے،جو اپنی لوٹ مار اور دوام اقتدار کی خاطر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مذاق جمہوریت کے ضامنوں کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ خطے میں تھانیداری کا فریضہ ہندوستان کو سونپ کر ،چین کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کو روکا جا سکے،پاکستان کی معاشی صورتحال جو بیرونی قرضوں اور اشرافیہ کی لوٹ مار سے شدید ترین دباؤ میں ہے،اسے استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی تھانیداری یقینی بنائی جائے۔ گزشتہ تحریربعنوان ’’پلان 2025‘‘ میں لکھا تھا کہ کس طرح عالمی طاقتیں دنیا میں نئی جغرافیائی تقسیم کے منصوبے بنائے بیٹھی ہیں اور ان نقشوں کے مطابق پاکستان کی تقسیم جس طرح دکھائی گئی تھی،اس میں گریٹر پنجاب کا نقشہ کچھ اسی طرح کھینچا گیا تھالیکن کیا یہ منصوبہ بعینہ روپذیر ہو پائے گا؟کیا ہمارے سیاستدان اس منصوبے کیخلاف بروئے کار آ سکیں گے؟کیا ہماری افواج ،خفیہ ایجنسیاں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ناپاک منصوبے کے سامنے بند باندھ سکیں گے؟مسلم لیگ ن کے موجودہ خوفناک بیانیہ،جس میں ان کے نا اہل قائدخود کو شیخ مجیب سے تشبیہ دے رہے ہیں،اسی منصوبے کا حصہ تو نہیں؟ایک ملک کے 3 مرتبہ سابق وزیر اعظم کے منہ سے پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے ایسی خوفناک باتیںچہ معنی دارد؟یہ پاکستان ہی ہے جس نے نواز شریف کو3 مرتبہ وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا ہے اور آج بھی ان کی نا اہلیت ماورائے قانون نہیں ہوئی مگر نرگسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں نوازشریف مسلسل ہرزہ سرائی کر رہے ہیں،بین السطور پاکستان کے خلاف اور ببانگ دہل پاکستان کے اداروں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں،عدلیہ ابھی تک تحمل و بردباری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ 
یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا پاکستانی شہری ،نا اہل وزیر اعظم کے،اس بیانئے کو تسلیم کر چکے ہیں ؟کیا واقعی ہمارا معاشرہ قانون پر عمل درآمد کرنے سے انکاری ہو چکا ہے؟کیا حقیقتاً ہمارے عوام قانون کی بالا دستی سے منکر ہو چکے ہیں؟تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایک اور دھچکا لگتا ہے کہ موجودہ پاکستان وہی خطہ سرزمین ہے ،جہاں کے باسیوں نے بابائے قوم کا ساتھ اس وقت دیا تھا ،جب انہیں ،ان کی جاگیروں کے تحفظ کا یقین دلا دیا گیا تھا،کیا ان کے نزدیک آج بھی سب سے مقدس و مکرم شے فقط ان کی زمینیں ہیں؟انہیں اس دھرتی اوراسکی آزادی سے کوئی غرض باقی نہیں رہی؟کیا انہیں اس امر کااحساس نہیں کہ موجودہ لائحہ عمل سے اگر کل کلاں (خدانخواستہ،خاکم بدہن)پاکستان کی حالت عراق یا شام جیسی ہو جائے،تب انکی پاکستان میں موجود جائیدادوں کا کیا ہو گایا سب کے سب بیرون ملک بھی جائیدادیں بنائے بیٹھے ہیں کہ یہاں جو بھی ہو ،ان کیلئے محفوظ ٹھکانے میسر ہوں گے؟خدارا اگر آپ کیلئے محفوظ ٹھکانے میسر ہیں،تو جائیں اور وہیں جا کر اپنی زندگی بسر کریں،اس ملک اور اسکے بے کس عوام کی جان چھوڑ دیں کہ آپکی ساری ہمدردیاں اور خلوص تو بیرون ملک ہیں،کیوں اس ملک کے شہریوں کو لوٹنے کیلئے،،ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے،انہیں مزید احساس کمتری میں مبتلا کرنے کیلئے آتے ہیں؟بات کہیں سے کہیں نکل گئی،لودھراں ضمنی انتخاب کا نتیجہ درحقیقت پنجاب کی مخصوص سیاسی حرکیات کا مظہر ہے ،جس میں برادری ازم کے علاوہ اب شہری صرف یہ دیکھنے لگے ہیں کہ امیدوار کا ربط ان کے ساتھ کتنا گہرا یا قریبی ہے۔ شہریوں کو اس سے قطعاً کوئی غرض نہیں کہ ان کا امیدوار یہ اہلیت رکھتا بھی ہے یا نہیں کہ جس پارلیمنٹ کی نمائندگی کیلئے اسے منتخب کیا جا رہا ہے وہ اس کا حق کماحقہ ادا کر بھی سکے گا یا نہیں۔ یہی وہ سیاسی حرکات ہیںجن کے رہتے ہوئے کسی بڑی تبدیلی کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔عمران خان کو بھی اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ تبدیلی صرف نعروں سے ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے اپنے آدرشوں ،اپنے اصولوں پر قائم رہنا از حد ضروری ہے۔موروثیت کیخلاف مسلسل تنقید یا الیکٹ ایبلز کو انتخابی ٹکٹ جاری کرنا ہی کامیابی اور تبدیلی کی ضمانت نہیں،تبدیلی کیلئے مخلص کارکنوں کو آگے لانے سے ہی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے وگرنہ تبدیلی کا نعرہ صرف اپنی تسکین کیلئے کافی ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں