Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا کے معانی اور اہمیت

ماہرینِ لغت کہتے ہیں کہ دعا کے معنی عبادت، ندا ، تسمیہ ، سوال ، کلام ، ترغیب اور مدد طلبی کےآتے ہیں

* *  * قاری محمد اقبال ۔ ریاض* * *     

دعا کے لغوی ا ور اصطلاحی معانی:
    (1) دعا کی لغوی اصلیت:دعا کا لفظ مادہ (دع و) سے ماخوذ ہے۔یہ آواز اورکلام کے ساتھ کسی چیز کی طرف مائل ہونے کا نام ہے۔ اس اصل کی بنا پر دعا کا معنی ہوگا : اللہ عز وجل کی طرف رغبت کرنا۔اس کی جمع اَدعیۃ آتی ہے اور اس کا فعل ’’دعا ، یدعو‘‘آتاہے۔اور اس سے مصدر درج ذیل پانچ صورتوں میں آتاہے۔
    ٭  اس کا مشہور مصدر (دُعاء ٌ)ہے۔
    (دُعاء ٌ)کا ہمزہ اصل میں (واؤ)ہے چنانچہ یہ دراصل (دُعاوٌ) ہے۔ اس کا اصل واوی ہے اور دلیل یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں: (دعوتُ،اَدعو)اسم الفاعل۔ اس سے (داعٍ)اور مفعول( مدعوّ ٌ) آتا ہے۔ پس ثابت ہو ا کہ (دعاء) کا ہمزہ واؤ سے تبدیل شدہ ہے۔یہ مصدر اس آیۃ کریمہ میں استعمال ہوا ہے:
     ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ  قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآء ۔
    ’’ اسی جگہ زکریا( علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، کہا : اے میرے پرورد گار!مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والاہے۔‘‘(آل عمران38)۔
     ایک دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَ ھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء۔
    ’’ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق( علیہم السلام)عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار دعا کا سننے والاہے۔‘‘(إبراہیم39)۔
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی وہ نبی کریم کی ایک دعا نقل کرتے ہیں :
    اللَّہُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِکَ مِنْ عِلْم لَا یَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یُسْمَعُ( سنن أبی داؤد)۔
    اس کے علاوہ بھی اس فعل سے مصدر کے کچھ صیغے ہیںجنہیں علمائے لغت نے بیان کیا ہے اور جنہیں فصیح عربی میں استعمال کیا جاتاہے۔
    ٭ (دَعْوٌ) ابن درید کہتے ہیں: (دَعْوٌ) ’’دَعَا یَدْعُو دَعْوًا ودُعائً‘‘سے مصدر ہے۔
    ٭ اسکاایک مصدر’’دعوَی‘‘ بھی ہے۔یہ بھی دعا کے معنی میں آتاہے۔ سیبویہ کہتے ہیں: عرب کہتے ہیں:(اللَّہُمََّّ أَشْرِکْنَا فِي دَعْوَی الْمُسْلِمِینَ)۔
    ’’اے اللہ!ہمیں مسلمانوں کی دعا میں شامل فرما۔‘‘
    اوراسی میں سے یہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
    دَعْوٰ ھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَ آخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن(یونس10)۔
    ’’ اہل جنت کی دعا جنت میں یہ ہوگی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے، اور ان کا باہمی تحفہ سلام ہوگا اور آخری دعا یہ ہوگی کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔‘‘
    ٭ اوراگر(دَعْوۃٌ)ہو تو اس کامعنی ہے: ایک مرتبہ کی دعا۔نبی کریم کے درجِ ذیل فرمان ذی شان میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:
    لِتَلْبِسْہَاصَاحِبَتُہَا مِنْ جَلْبَابِہَا وَلْتَشْہَدِ الْخَیْرَ وَدَعْوَۃَ الْمُسْلِمِینَ)(صحیح البخاري)۔
     ’’تمام خواتین عید کی نماز کے لیے نکلیں حتیٰ کہ جس کے پاس اوڑھنے کی چادر نہ ہو وہ بھی نکلے اور اسے کوئی دوسری خاتون اپنی چادر میں سے اڑھا دے اوروہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کریں۔‘‘
    ٭  ایک مصدر (دِعَایَۃٌ) بھی ہے۔ عرب کہتے ہیں : (دَعَادِعَایَۃً) جیسے کہا جاتاہے: (رَمیَ رِماَ یَۃً) یا جیسے (شَکَی شِکَایَۃً) اور اسی سے یہ فرمان نبوی ہے:جب آپ نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام اپنا نامہ مبارک ارسال کیا تو بسم اللہ کے بعد آپ نے لکھوایا:
    اَمَّا بعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَایَۃِ الإِسْلَامِ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَإِنَّ عَلَیْکَ إِثْمَ الأرِیسِیِّینَ)۔
    ’’امابعد! میں تمہیں اسلام کی دعوت پیش کرتاہوں ، مسلمان ہو جاؤ سلامت رہو گے ،نیز اللہ تعالیٰ تمہیں دہرا اجر عطا فرمائے گالیکن اگر تم منہ پھیرلو تو تم پر تمہار ی رعایا(کے کسانوں یا ٹیکس وصول کرنے والوں) کا بوجھ بھی ہوگا۔‘‘
    ٭  ایک مصدر اس فعل سے (دِعاوَۃٌ) بھی ہے مگر یہ شاذ اور متروک ومفقودہے۔
    (2)دعا کے لغوی معانی:
    « عبادت:نبی کریم کا یہ فرمان عالی شان اس سلسلہ میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ کی زبان اقدس سے سنا:
    ’’دعا عین عبادت ہے‘‘ ۔ اس کے بعد آپ نے کلام الہٰی سے یہ آیت کریمہ پڑھی’’تیرے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے ‘‘۔
    فرمانِ سید البشر کے بعد مزید کسی بشر کے کلام کی کوئی ضرورت تو نہیں رہتی مگر اسی فرمان عالی شان کی تائید اور توضیح میں علمائے  لغت اور تفسیر کے چند اقوال بھی نقل کیے جاتے ہیں:
    معروف لغوی اور مفسرابو اسحاق زجاج اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃ‘‘(الأعراف55)کی شرح میںلفظ’’خفیۃ‘‘کی تفسیرمیں کہتے ہیں :
    ’’اپنے دلوں میںاپنے رب کی عبادت کا اعتقاد رکھو ،کیونکہ دعا کا معنیٰ عبادت ہے۔‘‘
    مشہور لغوی امام محمد بن احمدازہری رقمطراز ہیں:
    کبھی دعا کا معنی عبادت ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ عز وجل کا یہ فرمان ذی شان ہے:
    اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ (الأعراف194)۔
    ’’ یعنی جن لوگوںکی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی تو ہیں۔‘‘
    اس کے بعد اللہ تعالیٰ کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا(الکہف14)۔ ازہری کہتے ہیں کہ سیدنا سعید بن مسیب ؓسے اس کی یہ تفسیر منقول ہے: ناممکن ہے کہ ہم اس (اللہ) کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کریں۔
    «  آواز دینا:دعاکاایک معنی ’’ندا‘‘ یعنی آواز دینا بھی ہے۔اور اسی سے کہتے ہیں ’’دَعاَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ دَعْوًی وَدُعَائً ‘‘یعنی آدمی نے آدمی کو آواز دی۔اور (دُعَاۃٌ) ایسے لوگوں کو کہا جاتاہے جو ہدایت یا گمراہی کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ اس کا واحد (دَاعٍ)آتاہے۔اور (رَجُلٌ داعِیَۃٌ)  ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو دین کی طرف یا بدعت کی طرف لوگوں کو بلائے۔اس میں (ۃ)مبالغہ کے لیے لگائی گئی ہے۔
    «  نام رکھنا:امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں : کبھی دُعا کا لفظ تسمیہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔مثلا عرب کہتے ہیں:’’ دَعَوْتُ ابْنِي زَیْدًا‘‘  یعنی میں نے اپنے بیٹے کانام زید رکھا۔قرآن مجید میں اس کی مثال درج ذیل آیت میں موجود ہے۔
    اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہ(الأحزاب5)۔
    ’’لے پالکوں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔‘‘
    «  طلب اور سوال:امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حقیقت اورشریعت میں دعا کے معانی کسی شے کی طلب کے ہیں۔
    حافظ ابوبکر بن العربی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دعا کا معنی لغت میں اور حقیقت میں کسی چیز کی طلب ہے۔
    ان کے علاوہ دیگر بہت سے علما نے بھی دعا کے یہی معانی بیان کیے ہیں اور یہی معانی کتاب وسنت ، کلام ِصحابہ اور سلف صالحین کے کلام میں زیادہ تر استعمال ہوئے ہیں۔قرآن مجید کی جن آیات میں یہ معانی استعمال ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک درج ذیل ہے:
    وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ (الأعراف134)۔
    ’’اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے: اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کردیجیے جس کا اس نے آپ سے عہد کررکھاہے۔‘‘
    اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال بخاری کی اُس روایت میں دیکھا جاسکتاہے کہ ہجرت کے سفر میں جب سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا پیچھا کیا اور اس کا گھوڑا سینے تک زمین میں دھنس گیاتو اس نے کہا:
    ادْعُ اللَّہَ لِي وَلَا أَضُرُّکَ، فَدَعَا لَہُ۔
    ’’میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے، میں آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کروں گا چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔‘‘
    مگر دعا کا یہ معنی’ طلب‘  مجرد طلب نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی طلب ہے چنانچہ اگر یہ طلب ادنیٰ کی طرف سے اعلیٰ کے لیے ہو تو ’دعا‘ کہلاتی ہے لیکن اگر یہ طلب اعلیٰ کی طرف سے ادنیٰ کے لیے ہو تو ’امر‘ کہلاتی ہے اوراگر اپنے ہم مرتبہ کے لیے ہو تو’ التماس‘ کہلاتی ہے۔غرض ایک ہی لفظ کے معانی طالب اور مطلوب کے احوال کے اعتبار سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
    «   قول وکلام:دعا اور اس فعل کے دیگر مصادر گاہے بات اور کلام کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔درج ذیل آیت کریمہ اس پر شاہد ہے:
    فَمَا کَانَ دَعْوٰھُمْ اِذْ جَآئَھُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْن(الأعراف5)۔
    ’’اس وقت ان کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی بجز اس کے کہ واقعی ہم ظالم تھے۔‘‘
    نیز یہ ارشاد باری تعالیٰ:
     فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰھُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(الأنبیاء15)۔
    ’’پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ (کی طرح )کردیا۔‘‘
     مشہور عرب شاعر عنترہ کا شعر ہے:
 یَدْعُونَ عَنْتَرَ وَالرَّمَاحُ کَأَنَّہَا     
 أَشْطَانُ بِئْرٍ فِي لَبَانِ الأَدْہَمِ
    }(یدعون عنترَ)کہتے ہیں : اے عنتر! ( أشطان)شطن کی جمع ہے۔یہ کنویں کے ڈول سے باندھی جانے والی طویل رسی کو کہتے ہیں۔(لبان)سینہ اور(أدہم) گھوڑا{۔
    لوگ کہتے ہیں : اے عنتر! ایسے وقت میں جب میرے گھوڑے کے سینے کی طرف تیر کنویں کی رسیوں کی طرح مسلسل آرہے ہوتے ہیں۔
    «  ترغیب وتشویق:بہت سے اہل علم نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے۔کہ یہ لفظ کسی چیز کی ترغیب دلانے اورشوق پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔
    اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس کی مثال اس آیت کریمہ میں موجود ہے:
    وَ اللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآ ء(یونس25)۔
    ’’ اللہ سلامتی کے گھر کاتمہیںشوق دلاتا ہے اور جسے چاہتاہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتاہے۔‘‘
    نیز یہ آیت کریمہ بھی اسی معنی کو ظاہر کرتی ہے:
    قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ ِالَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیٓ ْ اِلَیْہِ(یوسف33)۔
    ’’ یوسف (علیہ السلام) نے کہا:اے میرے رب! جس کام کی یہ عورتیں مجھے رغبت دلا رہی ہیں ،اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے،،۔
     «  مدد طلب کرنا: دعا کے معانی میں مدد طلب کرنے اور مشکل میں کسی کو مشکلات حل کرنے کے لیے پکارنے کا معنی بہت سے علمائے لغت اور علمائے تفسیر نے بیان کیا ہے۔
    اس کے استعمال کی مثالوںمیں اللہ رب العزت کا یہ فرمان عالی شان ہے:
     وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن(البقرۃ23)۔
    ’’تمہیں اختیار ہے کہ اللہ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لواگر تم سچے ہو (تو اس جیسی ایک سورۃ بنا کر لے آؤ)۔‘‘
    ’’وَ ادْعُوْا شُھَدَآئَکُم ‘‘ یعنی اپنے معبودوں اور خداؤں سے مدد طلب کرو۔یہ اس طرح کی بات ہے جیسے آپ کی دشمن سے تنہا مڈ بھیڑ ہو جائے اور آپ کہیں:مسلمانوں کو بلاؤ ، یعنی انہیں مدد کے لیے بلاؤ۔تو دعا یہاں استغاثہ کے معنی میں ہے۔
    دعا کے معانی کی یہ قسم دراصل سوال اور طلب ہی کے قبیل سے ہے۔ یہ الگ قسم نہیں۔

(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - - -شادی کے قوانین کی خلاف ورزی بے سکونی کا باعث

شیئر: