Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خرم کی محبت نے سسرال کا احساس نہیں ہو نے دیا،عمارہ

تسنیم امجد۔ریاض
انسان کی فطرت میں محبت اور وا بستگی رکھ دی گئی ہے ۔وہ جہا ں رہتا ہے اسے وہا ں کی ہر شے سے پیار ہو جا تا ہے پھر وہ وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔وہ اپنی زندگی تمام کر دیتا ہے مگرنجانے کیوں،انسان سب کچھ بھول سکتا ہے مگر کسی بھی ”اولیں“ کو وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ پہلی مرتبہ جس ماں کی گود میں سمٹتا ہے ، اسے بھلا نہیں سکتا، وہ پہلی مرتبہ جس سے پڑھنا سیکھتا ہے ، اسے بھلا نہیں سکتا، وہ پہلی مرتبہ جس سے منسوب ہو جاتا ہے ، اسے بھلا نہیں سکتا اور پہلی مرتبہ جس کا ہو جاتا ہے ، اسے تا دم مرگ فراموش کرنا اس کے بس میں نہیں رہتا۔ یہ سب کیا ہے ، شاید اسی کا نام محبت ہے جو ہر دل میں کسی نہ کسی حدت و شدت کے ساتھ موجود رہتی ہے ۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ جہاں آنکھ کھولتا ہے، اسے وطن کہتا ہے اور کبھی اسے بھلا نہیں سکتا،جس کا دل محبت کے جذ بے سے خالی ہو ، وہ کچھ بھی ہو سکتاہے مگر اسے انسان نہیں کہ سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ ملکو ں ملکوں گھو منے کے بعد بھی اپنی مٹی کی خوشبو کے لئے دل بے اختیار مچلتا ہے ۔
اسے بھی پڑھیں:عورت کی اولین ترجیح گھر اور بچوں کی تربیت ہونی چاہئے، تنویر طارق
یہی تڑپ اسے کسی نہ کسی بہانے وطن لے جا تی ہے ۔دوسری جانب ضرو ریات زندگی اور خوا ہشوں کی تکمیل کی خاطر پردیس بھی نا گزیر ہو جا تا ہے ۔واپسی کا را ستہ سامنے ہو تے ہو ئے بھی اسے ا ختیار کرنا نا ممکن لگتا ہے ۔کچھ ا ختیار میں نہیں رہتا ۔یو ں لگتا ہے زندگی ایک مشین ہے جو اپنے انداز میں چلی جا رہی ہے ۔ایسے کہ:
مو سم ، خو شبو ،بادِ صبا 
چا ند شفق اور تا رو ں میں 
کون اپنا ہے ،کون پرایا 
وقت ملا تو سو چیں گے
سچ یہ ہے کہ یہ وقت ہی تو نہیںملتا۔کیسے اور کس طرح اس کی تلاش کریں ؟آ ج ہوا کے دوش پرہماری مہمان عمارہ خرم تھیں ۔ انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش ہوں کہ میری باری بھی آ گئی ۔عزیزوں کا پڑھ کراپنے لئے یہ خواب سا لگتا تھا ۔ یہ سلسلہ انتظار اور پسندیدگی کے دور میں دا خل ہو چکا ہے ۔میری دعا ہے کہ یہ مزید پھلے پھو لے ۔ہم آ جکل تو آ سٹریلیا میں ہیں لیکن مملکت میں بھی مقیم رہ چکے ہیں۔اردو اخبار تو ہمارے گھر ضرور آ تا تھا ۔
عمارہ نے گفتگو کے دوران مختلف پھلوں کا ملک شیک بنا یا اور ہما ری بھی رہنمائی کی۔ہوا کے دوش پر گفتگو کو مزید دلچسپ بنا نے کے لئے ہمارے مہما نو ں کے ساتھ چائے ،کا فی یا کو ئی بھی مشروب کا دور ایسے ہی چلتا ہے ۔وطن میں تو پکو ڑے ،حلیم اور گو ل گپے خوب مزہ دیتے ہیں۔
عمارہ خرم ایک سلجھی ہو ئی ہمہ جہت و ہمہ صفت خاتون ہیں ۔کہنے لگیں کہ میں اپنے گھر میں بہن بھا ئیو ںمیں سب سے چھو ٹی ہو ں اس لئے کسی خراج کی طرح سب سے محبتیں و صول کیں اور ابھی تک کر رہی ہو ں۔گو کہ اب سر پر والدین کا سایہ نہیں رہا ۔ اس کے باوجود بھن بھائی میرے ناز اٹھانے میں کوئی کمی نہیں کرتے ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ میرے سب بھا ئیو ںاور بہنو ں کو خوش رکھے جومیرے لئے والدین کی کمی کو پورا کرنے کی حتی ا لا مکان کو شش کر تے ہیں ۔والدین نے ہمارا سا تھ چھو ڑ دیا ۔بابا سید محمود احمد فیض کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا جس کے بعد میری ماما سارہ فیض بھی ان کے پاس پہنچ گئیں ۔یہا ں یہ کہو ں تو بے جا نہیں ہوگا کہ:
رلانا ہر کسی کو آ تا ہے 
ہنسا نا بھی ہر کسی کو آ تا ہے
رلا کے جو منا لے ،وہ ”بابا “ ہے
اور جو رلا کے خود بھی رو پڑے ،
وہ ” ما ں ،، ہے پیاری ما ں
میرے بھائی سید کا شف فیض اور سید عا طف فیض با لکل بابا کی طرح چا ہتے ہیں ۔امبرین ،جہان زیب ،شہر با نو اور میں،”6 ستارے “ مشہور تھے ۔والدین نے ہماری پر ورش تن من دھن سے کی ۔ہمارا گھرانہ ادب دوست کے نام سے پہچا نا جا تا ہے ۔والدین کے ہا تھو ں میں فر صت کے لمحوں میں کتا بیں ہی دیکھیں ۔بابا ” امریتا پریتم“ کی شا عری بہت پسند کرتے تھے ۔وہ تھیں تو ہندوستان سے لیکن انہیں پا کستان میں بھی پسند کیا جا تا تھا ۔اسی طرح ”ٹا لسٹائی“ کے ناول ، ” اجیت کور،منٹو ،یو سفی اور عبدللہ حسین کو بھی پڑ ھا ۔اکثر شام کی چائے پر ہم انہیں ادبی گفتگو میں محو دیکھتے ۔ہم بھی اسی ما حول سے متا ثر رہے ۔
میں نے چھو ٹی ہو نے کے نا تے خوب محبتیں و صول کیں ۔ماما کبھی کبھی بابا سے الجھتیں کہ اسے اتنا سر پر نہ چڑ ھا ئیں لیکن بابا پر کو ئی اثر نہ ہو تا ۔شا ید ہر باپ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے اور ما ں بیٹے کے قریب ہو تی ہے ۔میں نے گھر داری اورباورچی خانے کا کام ماما کے گھر با لکل نہیں کیا ۔لا ڈلی تھی اور کالج سے بھی فر صت نہیں ملتی تھی ۔گریجویشن میں تھی تو خرم و حید سے ملاقات ہوئی ۔انہو ں نے پسندیدگی کا ا ظہار کرتے ہو ئے پروپوز کیا اور اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیج دیا ۔ساس امی تسنیم فر زانہ، سسر میا ں عبد ا لوحید اور نندیں شمائلہ شہباز، سجیلا سکندر بہت ہی محبت کرنے والے ہیں ۔مجھے ایسے لگا جیسے کسی ایک آ نگن سے نکل کردو سرے میں چلی آئی ہو ں ۔سسر کے ادبی مزاج سے بابا کی خوب مطا بقت ہو گئی ۔دو نو ں پہرو ں تبا دلہ  خیال کرتے رہتے ۔خرم و حید کی محبت و تعا ون نے مجھے یہ احساس ہی نہیں ہو نے دیا کہ میںسسرال میں ہو ں ۔
شادی کےابتدائی 9 برس مملکت میںگزارے ۔شہرِریاض میںمیرا گھر اپنی نند شما ئلہ کے گھر کے ساتھ تھا ۔یوں سمجھئے کہ دن عید اور رات شبِ برات رہی۔اسی دوران کھانا پکانا سیکھا تو سب کو بہت پسند آ یا ۔سبھی نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے ۔اس حو صلہ افزائی سے خوب سے خوب تر پکوان پکانے کی خوا ہش عود کر آئی اور اس نے آج مجھے با قا عدہ مستند شیف بنا دیا ۔
ہماری بات چیت کے دوران ہی ان کے شو ہر تشریف لے آ ئے ۔ان کی شخصیت میں بھی خوش مزا جی گویا کو ٹ کو ٹ کر بھری تھی۔ ان کی آمد سے ما حول مزید خوشگوار ہو گیا ۔وہ عمارہ سے کہنے لگے کہ میں گفتگو جاری رکھتا ہو ں۔آپ گر ما گرم چا ئے لے آ ئیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمارہ نے سسرال میں آ کر بہت جلد سب کے دل جیت لئے ۔میرے والدین تو ان سے دیوا نگی کی حد تک محبت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے آ نگن میں 3 پھول حیدر ،فا طمہ اور زینب تو مملکت میں ہی سجا دئیے تھے۔ہم 2011ءمیں آ سٹریلیا چلے آ ئے ۔میرے والدین مجھے بھی سمجھاتے تھے کہ گھر کو مستحکم کرنے میں مرد کا برابر کا ہاتھ ہوتاہے ۔یہاں میں نے عمارہ کے شو ق کی خا طر اسے کولینری کالج میں دا خلہ دلا دیا ۔ انہو ںنے ہا سپٹیلٹی اور کمر شل کو کرنگ میں 2سالہ ڈگری کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد پیسٹریز اور ڈیزر ٹ میکنگ کا ڈپلومہ بھی کیا۔
عما رہ نے ان کی گفتگو کوآ گے بڑ ھا یا اور بو لیں کہ یہ سب کچھ میرے لئے ان کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ۔ان کے بھر پور تعاون کی میں ممنون ہو ں۔بچے چھو ٹے تھے ۔میرے کا لج کے دوران یہ انہیں سنبھا لتے تھے ۔ایوارڈ یعنی ڈگری کی تقریب بہت شا ندار ہو ئی ۔میری تو خوا ہش تھی کہ میری جگہ ڈگری و ڈپلو مہ میرے شوہر کو ملے جنہوں نے میرے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ عمارہ کے شو ہر بو لے کہ یہ تو با ہمی ہم آہنگی کی بات ہے ۔ایک دو سرے کا خیال رکھنے سے ہی از دوا جی رشتے میں نکھار آ تا ہے ۔عمارہ ایک اچھی بیوی، اچھی بہو اوربچوں کیلئے اچھی ماں ثابت ہو ئی ہیں۔وہ اپنی ذمہ داریو ں میں توا زن رکھنا جا نتی ہیں۔اسی لئے وہ بچو ں پر بھر پور تو جہ دیتی ہیں اور میرا خیال رکھنے میں بھی کوئی کمی نہیں رہنے دیتیں۔بچو ں کی تر بیت میں میری شراکت بھی ضروری ہے ۔عمارہ نے کہا کہ اکثر کہا جا تا ہے کہ مرد کی کا میا بی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتاہے۔میں یہ کہو ں گی کہ عورت کی کا میابی کے پیچھے بھی مرد کا ہاتھ ہے ۔فریقین ایک دو سرے کو سمجھ لیں تو کا میا بیا ں
خود دروازے پر دستک دیتی ہیں ۔آج میرے بنائے ہوئے کیکس کی بہت ما نگ ہے ۔میں نے اللہ کریم کے فضل و کرم سے خود کو منوا لیا ہے ۔میں نے اپنے نصب ا لعین کا تعین کیا اور پھر اس کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دیا ۔
اسے بھی پڑھئے:زندگی میں سکون و آرام کے لئے خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیں، ثناءدرانی
ہم دونوں میاں بیوی کو ادب سے بھی لگا ﺅ ہے ۔ہم نے آ سٹریلیا میں بھی ہم خیال تلاش کر ہی لئے ۔اس طر ح اپنی مر ضی کی محافل سجانے کا اچھا مو قع مل جا تا ہے ۔شاعری میں بہت سے شعراءپسند ہیں ۔شعر اچھے ہو ں تومیں یہ نہیں دیکھتی کہ شا عر کون ہے۔اپنی پسند پیش کر تی ہو ں:
حسین ہے یہی ا حساس آ دمی کے سنگ 
وجودزن سے ہے تصویر کا ئنات میں رنگ
٭٭٭
نمود زندگی پیہم ہے مہدِ مادر میں
کہ ڈھا نپ رکھا ہے خود کو حیا کی چا در میں
٭٭٭
ہے دور نیاپر وہی اطوار پرانے
سا دہ سی زباں اورہیں معقول بہانے
خر م صا حب نے بھی اپنی پسند کے اشعارپیش کئے:
جب دل کی رہگزر پہ ترا نقشِ پا نہ تھا 
جینے کی آ رزو تھی مگر حو صلہ نہ تھا
آ گے حریمِ غم سے کو ئی را ستہ نہ تھا 
اچھا ہوا کہ سا تھ کسی کو لیا نہ تھا 
دا مان چاک چاک ،گلو ں کو بہا نہ تھا 
ورنہ نگا ہ و دل میں کو ئی فا صلہ نہ تھا 
کچھ لوگ شر مسار خدا جا نے کیو ں ہو ئے 
ان سے تو روح عصر ہمیں کچھ گلہ نہ تھا
جلتے رہے خیال بر ستی رہی گھٹا
ہا ں ناز آ گہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا 
سنسان دو پہر ہے بڑا جی اداس ہے 
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا 
آ ندھی میں برگ گل کی زبا ں سے ادا ہوا 
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا 
محتر مہ عمارہ نے میڈیا کی وسا طت سے اپنا پیغام بھی دیا ۔کہنے لگیںکہ کسی بھی گھر کا مصروف ترین مقام با ور چی خانہ یعنی کچن ہے۔یہا ں ہر روز منہ اندھیرے ہی لا ئٹ آ ن ہو تی ہے اور رات بھیگنے کے بعد آ ف ہو تی ہے ۔خا تو نِ خانہ کی زندگی کا ایک چو تھا ئی حصہ اسی میں گزر تا ہے ۔اس لئے یہ حصہ اس کے لئے نہا یت اہم ہے ۔اس کی انتظامی صلا حیتو ں اور عقل و دا نش کا پر تو اسی با ور چی خانہ میں نظر آتا ہے ۔عورت ،اپنے شو ہر اور اہلِ خانہ کی پسند کے کھا نے پکا کر محبتیں و صول کرتی ہے ۔خا تون خواہ ملا زمت کیو ں نہ کر تی ہو، اس پر باورچی خانے کی ذمہ دار یا ں جو ں کی تو ں رہتی ہیں ۔انہیں عقلمندی سے نبھا نا ضروری ہو تا ہے ۔اسی لئے لڑ کیو ں کی تر بیت میں اس پہلو پر شروع ہی سے تو جہ دینا ضروری ہے ۔انہیںپیسے کا استعمال ، بچت اور ا خراجات میں کفا یت شعاری کا فن سکھا نا ضروری ہے ۔مشر قی و مغربی معا شرے کی طرزِ معا شرت اگر چہ الگ الگ ہے لیکن وہا ں بھی یہ پہلو ضرور دیکھا جا تا ہے ۔ہمارے معا شرے میں اکثر لڑ کیو ں کی تر بیت کھا نا پکا نے ،سلائی کڑ ھا ئی اور گھریلو کام کاج تک محدود ہو تی ہے اور ا خرا جات میں کفا یت شعاری کے پہلو کو نظر انداز کر دیا جا تا ہے حالانکہ لڑکی کو آ مدن و خرچ کو منظم انداز سے چلانے کا سبق اگر پڑ ھا دیا جائے تو آ ئندہ گھر داری آ سان ہو جاتی ہے ۔
بڑ ھتی ہو ئی ضرو ریات کے با عث ایشیائی مما لک میں بھی لڑ کیو ں میں ملا زمت کا رحجان کا فی زیا دہ ہو چکا ہے تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکیا ں اپنی ما ہا نہ آ مدنی کا بڑا حصہ ملبو سات ،جو تے اور دیگر اشیاءپر صرف کر دیتی ہیں ۔اس طرح مہینے کے آ خر میں والدین سے جیب خرچ کا مطا لبہ کر تی ہیں ۔یہی عادت عملی زندگی میں آ نے کے بعد بھی قا ئم رہتی ہے ۔ویسے بیشتر ما ئیں اپنی بچیو ں کی اس فضول خر چی کو بڑے فخر سے بیان کر تی ہیں ۔ان کے برا نڈز کے شو ق کو لوگوں کو متا ثر کرنے کے لئے بیان کرتی ہیں ۔ان سے گزا رش ہے کہ یہ کو ئی بڑائی نہیں بلکہ بگڑی ہو ئی عادت ہے جو مستقبل میں مسا ئل کا مو جب بن سکتی ہے ۔اس تر بیت کو سہل کرنے کے لئے ما ﺅ ں کو پہلے خود عملی نمو نہ بننا چا ہئے ۔
زندگی کے ہر شعبے میں میا نہ روی روا رکھنے سے بہت سی الجھنو ں سے نجات مل سکتی ہے ۔اکثر خواتین چا ہتی ہیں کہ ان کا طرزِ زندگی ممتاز ہو تاکہ حلقہ ا حباب متا ثر ہومگر اس دکھاوے کی وجہ سے بجٹ متا ثر ہو جا تا ہے ۔
میں یہ ما نتی ہو ں کہ تبدیلی انسان کو بھا تی ہے ۔اس کا حل یہ ہے کہ گھر میں موجود اشیاءکو ردو بدل سے رکھ دیا جا ئے یعنی سیٹنگ بدل دی جائے تو کا فی حد تک تسکینِ طبع میسر آ جاتی ہے ۔بچیو ں کو شا پنگ کے دوران ما ئیں اپنے ساتھ رکھیںبلکہ گھر سے نکلنے سے پہلے انہیں اشیاءکی فہرست بنا نے میں شا مل رکھیں ۔اس کے بعد بجٹ کو توا زن رکھنے میں بھی ان کی رائے لیں ۔اس طرح وہ خود کو معزز محسوس کریں گی۔ 
 

شیئر: