Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دشنام طرازی بند ہونی چاہئے

عبداللہ المزھر ۔ مکہ
      حقیقت یہ ہے کہ تل ابیب سے القدس امریکی سفارتخانے کی منتقلی سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جسے نیا کہا جاسکے۔بس اتنا ہوا کہ درجنوں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل اب کوئی توجہ طلب امر نہیں رہا۔ اس پر نہ شکوے کی تحریک ہوتی ہے اور نہ اس پر خفگی اور ناراضگی کا کوئی حساب بنتا ہے۔ عربوں نے معمول کے مطابق دشنام طرازیوں کا تبادلہ کیا۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے کرہ ارض پر عرب نام کی نسل نے جنم لیا ہے تب سے وہ ایسا ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔
      میری آرزو تھی کہ کاش اس واقعہ پر تھوڑی سے تبدیلی رونما ہو ۔ میں چاہتا تھا کہ عرب اپنے مشہور ترین ہتھیار ”گالیاں“کا رخ اس مرتبہ اپنے دشمن کی طرف کردیںمگر عربوں نے اس حوالے سے بھی مایوس کیا اور انہوں نے اس بار بھی گالیوں کا رخ اپنوںہی کی طرف روا رکھا۔
      غالباً پرامن بقائے باہم اور انسانیت نوازی کے جذبے سے بعض عربوں نے یہ سوچا کہ اِن کی گالیوں سے اُن کی انسانیت مجروح ہوگی اور اہل جہاں کے سامنے ان کی غلط تصویر آئیگی۔ یہ سوچ کر شاید انہوں نے طے کیا کہ گالیوں کا بازار مقامی حد تک ہی محدود رہے۔ یہ عربوں کا فیصلہ ہے۔ میرے نقطہ نظر سے یہ سوچ درست نہیں ۔میرا خیال ہے کہ اگر ہم امریکی صدر ٹرمپ پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے تو وہ اس بات سے بالکل خفا نہ ہوتے ۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر، امریکی میڈیا کی طرف سے دشنام طرازیوں کی بوچھاڑکے عادی ہوگئے ہیں۔ صہیونیوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ بھی ہماری جارح زبان سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔ 70برس سے زیادہ عرصے سے ہم صہیونیوں کے خلاف سخت سست زبان استعمال کررہے ہیںلہذا ہمارا یہ خوف کہ اگر ہم نے امریکہ یا صہیونیوں کے خلاف گالیاں نکالیں تو اِس سے اُن میں سے کسی ایک کو اذیت ہوگی قطعاً بے معنی ہے۔
      میں آپ سے اپنے دل کی یہ بات چھپانا نہیں چاہتا کہ جب میں نے تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایوانکا کو دیکھا تھا اور اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی تو اس وقت میرے دل میں آیا تھا کہ کچھ نازیبا جملے استعمال کروں لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس ڈر میں نہیں کیا کہ میری سخت زبان کو شاید ہی عوام میں رواج مل سکے۔
      حاصل کلام یہ ہے کہ میں بہت زیادہ خواب دیکھنے کا عادی نہیں رہا۔ مجھے دعویٰ نہیں کہ اس مسئلے کا حل معلوم ہے۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ ہمارے مسائل کا مثالی اور حتمی حل حضرت اسرافیل علیہ السلام کا صور ہی کافی ہوگا۔ یہ وہ قوم ہے جو اپنا وجود خود تہس نہس کررہی ہے جو دشمنوں سے زیادہ خود سے نفرت کررہی ہے۔ میرا معمولی سا خواب یہ ہے کہ ہم قدرے حیا کریں، دشنام طرازی بند کریں ۔الاقصیٰ ، القدس اور فلسطین کے بارے میں بہت سارے قصائد کہے جاچکے ہیں، وہ کافی سے بھی زیادہ ہیں، اب ہمیں خاموش ہوجانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: