Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان ، قرآن اور فہم قرآن

خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے،جس میں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے ، دنیا کی کوئی بھی شے خالی نہیں

ماہ رمضان المبارک کے روزے دراصل ایک عظیم الشان نعمت پر تشکر کااظہارہے ۔وہ نعمت ہے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی بے مثال کتاب الٰہی کا نزول۔اس کی وجہ سے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور دیگر مہینوں پر اسے فضیلت دی گئی۔اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:
    ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتااس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(البقرہ185)۔
    اس لحاظ سے قرآن اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ قرآن کا دور فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے تھے چنانچہ ہم ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ نماز تراویح میں اور الگ سے بھی بہ کثرت اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ رمضان اور قرآن کو اس طور پر بھی مناسبت حاصل ہے کہ یہ دونوں روز قیامت بندے کے حق میں سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)۔
    اس طرح قرآن کریم کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک حرف پراجرعطا کرے گا۔
    اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ تعالیٰ کوبے حد محبوب ہے اور اس پڑھنا اور سننا دونوں کارِثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں غوروتدبر اوراس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:
    ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘(صٓ29)۔
    نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اسکے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہواس لیے اسکے علاوہ اورکوئی وہ اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتااس لیے کہ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ اس میں کون سی چیزبری ہے اور کون سی چیز اچھی ہے۔کس طرح اس کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ ہی دنیاکا نظام مرتب کرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔
    قرآن مجید تمام انسانوںکو تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے ۔وہی اس کا حق دارہے کہ وہ نظم ِمملکت کو سمجھے اورقرآن میں غوروتدبرسے کام لے۔اس لیے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہے۔اس کا مخاطب صرف مسلمانوں کوقراردیناصحیح نہیں۔یہ قرآن کی آیت(ہدی اللناس- تمام لوگوںکے لیے ہدایت ہے)کے سراسرخلاف ہے۔قرآن عام لوگوں کو دنیا کی تخلیق اوراس کے نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
    ’’ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوں کوکس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوں میں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتاہے تنگ کرتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘(العنکبوت63-61)۔
    اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک خاص قسم کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کے لیے جھنجھوڑتا ہے:افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا’’کیا ان لوگوںنے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوں پران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘(محمد 24)۔
    ابن کثیر رحمہ اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میں غوروفکرسے اعرض کرتے ہیں، ان کی سرزنش کرتاہے ۔
    حسن بصری رحمہ اللہ ؒفرماتے ہیں :
    ’’قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبر اورا سپر عمل کیاجائے لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیا،اس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔‘‘(مدارج السالکین )۔
    ابن قیم فرماتے ہیں:
    ’’تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ۔ ‘‘(نضرۃ النعیم )۔
    ارشادباری تعالیٰ ہے:
    ’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوں اورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتاہے؟‘‘(المؤمنون 89-84)۔
    خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے۔یا یوں کہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی شے خالی نہیں ہوتی حتیٰ کہ خالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح اگرانسان نے اپنے افکار و خیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بِناسوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک مویشی میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کا زندگی گزارنابے مقصدہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیااس لیے قرآن لوگوں کوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
     ’’زمین اورآسمانوں کی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جواٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں اللہ کویاد کرتے ہیں اورزمین اورآسمانوں کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار!یہ سب کچھ تُونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایا۔‘‘ (آل عمران191,190) ۔
    آج لوگ ایک نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اوران کے بچے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ سینٹر کا نظم کرتے ہیںتاکہ مزیدان میں گہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ اسکول کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں مگروہ اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور ہمیشہ کام آنے والی مقدس کتاب جس میں نظام زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے ،وہ کن تعلیمات پر مشتمل ہے وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی سے کام لیناچاہتے ہیں۔اسی طرح وہ لوگ جو اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غورفکرکرتے ہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں کیونکہ ا نھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
    ویل لمن قرأھا ولم یتفکر فیھا۔
     ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا۔‘‘(صححہ البانی فی السلسۃ الصحیحۃ)۔
    لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈر یا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تواگرچہ وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے اورجب تک اس کا مطلب سمجھ نہ آئے اسے سکون نہیں ملتابلکہ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے مگرقرآن جس میں خالق کائنات نے ایک پیغام دیا ہے،جس میں دین ودنیادونوںکے فائدے ہیں،اس کے سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    ’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے رب !میری قوم کے لوگوںنے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘(الفرقان 30)۔
    اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ’’قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔‘‘
    علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمیں ہیں ۔ان میں سے ایک قرآن میں تدبروتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوں سے کیاکہہ رہاہے(بدائع التفسیر)۔
    نبی کریم پر قرآن مجید کا نزول ہواتھاـآپ کا معاملہ یہ تھاکہ آپقرآن بہت ٹھہرٹھہرکراورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپقرآن ترسیلاً تلاوت فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے(مسلم)۔
    رسول اللہ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذر عفاریؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہنے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں(المائدہ 118)۔
    فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔واضح اورپختہ نظریہ تھا جس پر وہ عمل پیراتھے۔
    حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:
    ’’ ہم سے جوکوئی 10آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنیٰ اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘(رواہ الطبری فی تفسیرہ)۔
    علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع 3 طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں۔ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کراللہ کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔دوسرے وہ لوگ ہیں جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غورسے سنتے ہیں اور اس میں غوروتدبرسے کام لیتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
    عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ،عام لوگوں کا نہیں مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص نہیں کی بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
    مولانا مودودی رحمہ اللہؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
    ’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم ِطب کی کوئی کتاب لیکرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائیگی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواُسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟ مگر شافی ٔ  مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔
    آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اسکے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘ (خطبات حصہ اول)۔
    ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا:
    انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ۔
    ’’ہم لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا مشکل جبکہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن)۔
    قرآن جوکہ تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیااورغورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل مشکل ہوجائے گا، پھریہ عام انسانوں کی رسوائی اورذلت کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہے ،پھر بھی وہ اس پر وہ عمل نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں:- - - - غزوۂ بدر ، محض دو لشکروں کا مقابلہ نہیں

شیئر: