Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا قطر کا بائیکا ٹ ناکام ہوگیا؟

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
قطر کے بائیکاٹ پر ایک سال گزرنے کے بعد متعد د مضامین دیکھنے کو ملے۔ تعلقات عامہ مہم کے تحت کالم نگاروں نے قطر کو انسداد دہشتگردی کے علمبردار ممالک کے بائیکاٹ کے آگے ڈٹے رہنے پر کامیابی کی مبارکباد دی۔ حقیقت یہ ہے کہ قطری حکام نے بائیکاٹ کو ختم کرانے اور تعلقات کی بحالی کیلئے کوئی حیلہ ایسا نہ چھوڑا جسے آزمایا نہ ہو۔ انہیں کامیابی نہیں ملی۔ ایک پروپیگنڈہ والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قطر عربوں کے بائیکاٹ کا 100برس تک مقابلہ کرسکتا ہے اور بائیکاٹ کرنے والے چارو ںعرب ممالک قطری حکومت کی استعداد اور معیشت کا بال بیکانہیں کرسکتے۔
سوال یہ ہے کہ اگر قطر پر کوئی اثر نہیں پڑا، اسکی اس حوالے سے کوئی فکر نہیں تو آخر وہ بائیکاٹ ختم کرانے کیلئے امریکہ کے سرکاری اداروں کی منت سماجت میں کیوں لگا ہے؟ آخر تعلقات کی بحالی پر بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک کو مجبور کرنے کیلئے ہر موثر فریق کے آگے پیچھے کیوں دوڑ رہا ہے؟
چاروں عرب ممالک کے سامنے 2باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قطر چھوٹی منڈی ہے۔ بڑا بینک ہے۔ وہ مال کی فراوانی کی بدولت چھوٹی منڈی کی محدود ضرورتیں فضائی نقل و حمل کے ذریعے پوری کرسکتا ہے۔شروع سے ہی کوئی اس وہم میں مبتلا نہیں تھا کہ اقتصادی ہتھیار اسے سیاسی دستبرداری پر مجبور کریگا۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب جانتے سمجھتے ہوئے بھی قطر کا جغرافیائی ، سرحدی اور فضائی بائیکاٹ کیوں کیا گیا؟ دراصل چاروں عرب ممالک اس امر کے شاکی ہیں کہ قطر ی حکام انتہا پسند اور مخالف جماعتوں کی فنڈنگ کررہا ہے۔ وہ ایسے ہر گروہ کی مدد کررہا ہے جو ان ملکوں کی داخلی سلامتی کو انارکی سے دوچار کردے۔ قطر کیساتھ متعدد طور طریقے آزمائے گئے۔ معاہدے کئے گئے۔ اس نے کسی کا احترام نہیں کیا۔ چارو ناچار بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ بائیکاٹ کوئی ہدف نہیں تھا اور نہ ہے۔ قطر ایئرلائنز، مملکت سے سالانہ 50لاکھ سواریاں اٹھا رہی تھی۔ اب اسکا سلسلہ یکسر بند ہوگیا ہے۔ قطر کے ادارے بائیکاٹ کے باعث ہونے والے نقصان کو انتہائی گھٹا کر پیش کررہے ہیں۔
بائیکاٹ سے عرب ممالک کو کیا فائدہ ہوا؟ پہلا فائدہ یہ ہوا کہ داخلی امور میں قطری مداخلت کا سلسلہ بند ہوگیا۔ قطر کے ہر ادارے کے ساتھ تعاون اور لین دین کا رشتہ ممنوع ہوگیا۔ ان سب سے قطر فائدہ اٹھا رہا تھا۔ چاروں ملکوں میں قطر کا داخلی نیٹ ورک تباہ کردیا گیا۔ چاروں ممالک 100برس سے کہیں زیادہ عرصے تک قطر سے بے نیاز رہ سکتے ہیں۔ جہاں تک ایران کے ساتھ قطر کی قربت کا تعلق ہے تو یہ رشتہ ایران اور قطر کا پہلے بھی تھا۔ اگر قطر ایران کیساتھ عسکری اور شہری تعاون اور درآمد و برآمد کا دائرہ وسیع کررہا ہے تو یہ امریکہ کی پالیسی سے ٹکرانے والی بات ہے جو ایران کے بائیکاٹ پر بضد ہے۔ جو لوگ قطر کی ثابت قدمی پر اسے تحسین پیش کررہے ہیں ،وہ دراصل بائیکا ٹ کے مزاج کو سمجھ ہی نہیں رہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ بائیکاٹ کا بنیادی ہدف قطر اور اسکی سیاست کو الگ تھلگ کرنا اور اسکے ساتھ لین دین بند کرنا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: