Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخ اور حرام خوری

***وسعت اللہ خان ***
  ٹائمز ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں تدریس ، نصابی معیار ، تعلیمی ماحول ، تحقیقی سہولتوں ، فنڈنگ وغیرہ کے اعتبار سے دنیا کی ایک ہزار یونیورسٹیوں کی سالانہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔اس فہرست میں سب سے زیادہ تعداد حسبِ توقع یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کی ہوتی ہے۔نمبر ون یونیورسٹی کا ٹائٹل  ہارورڈ ، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی جامعات کے درمیان گھومتا رہتا ہے۔اور آخری درجات پر ترکی ،ملائیشیا ، پاکستان یا کسی خلیجی ملک کی یونیورسٹیاں آجاتی ہیں۔
ٹائمز رینکنگ میں براعظم ایشیا کی  سب سے زیادہ یونیورسٹیاں چین سے ( 56 ) ہیں۔براعظم ایشیا کے48 میں سے 24 ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں اب تک جگہ نہیں پا سکی۔ ٹاپ ہنڈرڈ میں ایشیا سے چین ، سنگاپور ، جاپان ، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا کی کچھ یونیورسٹیاں جگہ بناتی ہیں  جبکہ ٹاپ ٹو ہنڈرڈ میں تائیوان اور اسرائیل  کا اضافہ ہوا ہے۔
جنوبی ایشیا ( سارک )  میں اگرچہ دنیا کی 55 فیصد آبادی بستی ہے۔مگر اس خطے سے صرف 3 یا 4 نام فہرست میں چمک رہے ہوتے ہیں یعنی سری لنکا کی 2 ، پاکستان کی 7 اور ہند کی31 جامعات۔پاکستان کی کومسٹس ، نسٹ اور قائدِ اعظم یونیورسٹی کی ورلڈ رینکنگ اگرچہ600سے800 کے رینکنگ بریکٹ میں اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، کراچی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف لاہور کی رینکنگ آٹھ سو تا نو اسی یونیورسٹیوں کے بریکٹ میں ہے مگر اس نچلی رینکنگ کو بھی اس اعتبار سے غنیمت سمجھنا چاہئے کہ اس سے قبل پاکستان کی 2یا 3 یونیورسٹیاں ایک ہزار عالمی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں جگہ پاتی تھیں۔
اب اگر اس فہرست کا عالمِ اسلام کے مجموعی تعلیمی معیار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معروف ماہرِ تعلیم و سائنسداں ڈاکٹر عطا الرحمان  بیسیوں مضامین میں اس  موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈال چکے ہیں۔اگر ٹائمز رینکنگ فہرست میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کے ستاون رکن ممالک کو تلاش کیا جائے تو 41 ممالک کا نام غائب ہے۔جو16 ممالک اس فہرست میں شامل ہیں ان میں ترکی (15) ،  ایران ( 11 ) ، پاکستان (7 ) ، ملائیشیا ( 6 ) ، سعودی عرب (4 ) ، مصر (4) ، اردن ( 2 ) ، تیونس ( 2 ) ، انڈونیشیا (2 ) اورمراکش ، عمان ، متحدہ عرب امارات ، کویت ، نائجیریا ، گھانا ، یوگنڈا کی ایک، ایک یونیورسٹی شامل ہے۔گویا او آئی سی کے رکن عالمِ اسلام کی صرف ساٹھ یونیورسٹیاں ایک ہزار اچھی عالمی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ان میں سب سے معیاری  سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی  ہے جس کی رینکنگ201 سے250کے درمیانی بریکٹ  میں آتی ہے۔
سب سے زیادہ ( 15) یونیورسٹوں کا تعلق ترکی سے ہے اور ان میں بھی بیشتر  سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے مشہور ہیں۔گو ترکی ان معنوں میں مغربی ملک نہیں مگر مغرب کی سائنسی تعلیمی قربت کا ترک نظامِ تعلیم کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔ ٹائمز ورلڈ رینکنگ میں شامل گیارہ ایرانی یونیورسٹیوں میں سے آٹھ کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہے۔
مشرقِ وسطی میں اگر کوئی ایک ملک ٹاپ ٹو ہنڈرڈ  کی ورلڈ رینکنگ میں آ سکا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔مجموعی طور پر اسرائیل ( آبادی 85 لاکھ ) کی 6 یونیورسٹیاں ٹائمز رینکنگ میں ٹاپ ٹو ہنڈرڈ سے ٹاپ ایٹ ہنڈرڈ کے بریکٹ میں شامل ہیں۔
سب سے متاثر کن معاملہ چین کا ہے۔بیس برس پہلے تک ایک درجن چینی یونیورسٹیاں بھی ٹاپ ایک ہزار کی ورلڈ رینکنگ میں جگہ حاصل نہیں کر پاتی تھیں مگر آج چین کی 56 یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہیں۔ان میں سے3 ٹاپ ہنڈرڈ رینکنگ میں ہیں۔ کل ملا کے56 میں سے 6 چینی یونیورسٹیاں دنیا کی 200بہترین درسگاہوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔
ہند کی آبادی ( ایک ارب 30 کروڑ ) کو دیکھتے ہوئے اس ملک کی صرف31 یونیورسٹیوں کا ٹاپ ایک ہزار میں شامل ہونا حوصلہ افزا عمل دکھائی نہیں دیتا لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں معیاری تعلیمی اداروں کی گروتھ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سال بہ سال اس رینکنگ میں اور اضافہ ہوتا جائے گا۔
اس طرح کی رینکنگ سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو البتہ یہ سوچنے کا موقع ضرور ملتا ہے کہ دنیا میں اگرچہ200 سے زائد ممالک ہیں مگر ان میں سے صرف 26 ممالک ہی ایسے کیوں ہیں جہاں دنیا کی200چوٹی کی درسگاہیں پائی جاتی ہیں۔اور ان 26 ممالک میں بھی امریکہ ، کینیڈا ، روس ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت 18مغربی اور صرف8 غیر مغربی ممالک کیوں ہیں۔
ہمیں مدرسے سے  یونیورسٹی تک ہوش سنبھالنے سے عالمِ سکرات میں مبتلا ہونے تک مسلسل بتایا جاتا ہے کہ اقرا ( پڑھ ) ، ربِ زدنی علما ( اے رب میرے علم میں اضافہ فرما ) ، علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے ، تحصیلِ علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
ہم اس پر بھی مستقل اینٹھے رہتے ہیں کہ سب سے پہلی یونیورسٹی ہمارے آبا و اجداد نے ہزار برس سے بھی پہلے تیونس میں بنائی  ، سب سے بڑی جامعہ الازہر تب بنی  جب یورپ کو تعلیم کی ت بھی نہیں معلوم تھی۔بغداد کے دارلحکمت میں اس قدر کتابیں تھیں کہ تاتاریوں نے انہیں جلایا تو دجلہ و فرات کا پانی ان کی راکھ سے کئی دن سیاہ رہا۔مغربی تہذیب ہی نہ ہوتی اگر مسلمان متروک یونانی علوم کا ترجمہ کرکے انہیں زندہ نہ کرتے۔اگر ابن سینا ، فارابی ، جابر بن حیان پیدا نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ 
کیا فائدہ آج اس  اٹائیں سٹائیں کا۔کاش اغیار کو نیچا دکھانے اور سنہرے ماضی کی ڈھال بنانے کی لچھے داریمیں جو توانائی نسل در نسل ضائع ہو رہی ہے اس سے آدھی توانائی اب بھی تعلیم میں لگ جائے تو کچھ بن جائے۔
’’ ہم پچھلے ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پے بیٹھے حرام خوری کر رہے ہیں ’’ ( جون ایلیا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: