Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حمید گل

***محمد مبشر انوار***
قرون اولی کے مسلمانوں کے علاوہ تاریخ میں جب بھی مؤمنین نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما اور متحد ہو کر کفار سے بر سر پیکار ہوئے،اللہ رب العزت نے انہیں کامیابی و کامرانی و فتح و نصرت عطا فرمائی۔ ان جنگوں میں جو خالصتاً اللہ کے دین اور آقائے نامدار ؐکے پیغام کو پھیلانے کے لئے کلیتاً اسلامی اصولوں کے مطابق لڑی گئی،مؤمنین کی یہی خواہش و جذبہ موجزن دیکھا گیا کہ وہ کسی منفرد شجاعت و دلیری و بہادری کے مظاہر پیش کرتے نظر آئیں اور کسی مقام پر پیٹھ نہ دکھائیں۔ان کی ساری جرآت و بہادری و دلیری فقط اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہو ،اور رتبہ شہادت کو والہانہ چوم لیں۔ اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کی معراج ہی قرآن نے شہادت بتائی ہے جبکہ محاذ سے زندہ لوٹ آنے والوں کو غازی کی نوید سنائی ۔رتبہ شہادت اتنا عظیم ہے کہ ہر مسلمان اس کی خواہش و تڑپ دل میں رکھتا ہے لیکن یہ رتبہ عظیم اللہ رب العزت کی جانب سے خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے عظبم سالار،حضرت خالد بن ولیدؓہیں کہ جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں کہ جہاں جنگوں کے نشان بطور ثبوت موجود نہیں،جوشجاعت و دلیری کی عظیم داستان بزبان خود سناتے نظر آتے ہیں مگر رتبہ شہادت سے سرفراز نہیں ہوتے حالانکہ اس رتبہ عظیم کی شدید ترین خواہش دل میں رکھتے تھے۔ ایسا نہیں کہ حضرت خالد بن ولید ؓکے جذبہ و خواہش میں کوئی کمی رہی ہو،یا (نعوذ باللہ) ان کی نیت پر کسی قسم کا شک کیا جا سکتا ہولیکن اہل نظر اور صائب الرائے لوگوں کے نزدیک اس کی وجہ کچھ اور رہی کہ اتنا عظیم سالار جو محاذ جنگ پر اگلی صفوں میں داد شجاعت دیتا رہا ہو،اس عظیم رتبے سے کیونکر محروم رہا؟ان کے نزدیک حضرت خالد بن ولیدؓ کے غازی ہونے کی وجہ یہ رہی کہ نبی اکرم نے انہیں ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا کیا اور یہ کیسے اور کیونکر ممکن تھا کہ اللہ کی تلوار کسی محاذ جنگ پر زیر ہو جاتی یا ٹوٹ جاتی (مراد شہادت کا رتبہ حاصل کرتی)،یہی وجہ تھی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ اپنی تمام تر شجاعت و دلیری اور اگلی صفوں پر جنگیں لڑنے اور جسم کے ہر حصے پر ان جنگوں کی نشانیاں سمیٹنے کے باوجود غازی کے رتبے سے سرفراز ہوئے۔ غازی اسلام بن کر بھی ان کا جذبہ کسی طور کم نہ ہوا اور وہ اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر ہر نئے محاذ کے لئے اپنی تجاویز اور لائحہ عمل سمیت امیر المومنین کی خدمت میں حاضر رہے کہ یہی ایک مرد مومن کی شان ہے۔ 
دور جدید میں فن حرب و ضرب کی تکنیک کلیتاً بدل چکی ہے،آج کے دور میں دست بدست جنگ کا امکان آخری معرکے میں ہوتا ہے وگرنہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جنگیں اور آلات حرب و ضرب بٹنوں کے محتاج ہو چکے ہیں،تلوار و تیر وتفنگ کہیں بہت پیچھے رہ گئے اور ان کی جگہ جدید اور مہلک ہتھیاروں نے لے لی ہے۔ انفرادی داد شجاعت کے مظاہرے آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں مگر یہ مظاہرے بھی جدید ساز و سامان کے میسر ہونے سے مشروط ہیںکہ ان کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص/فوجی انفرادی طور پر دشمن کے مہلک ہتھیاروں کے سامنے زیادہ دیر تک ٹک سکے،البتہ یہ ضرور ہے کہ مسلم افواج کے جذبہ میں آج بھی وہی ترنگ اور امنگ موجود ہے ،جو انہیں کفار سے ممتاز کرتی ہے کہ کفار زندگی کی خاطر لڑتے ہیں اور مسلمان فوجی اپنی ابدی زندگی کی خاطر ،رضائے الہی کے حصول کی خاطر لڑتا ہے۔ یہ 2009کی بات ہے جب آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی مرحوم جنرل حمید گل شہر ریاض میں موجود تھے (جو وہ بالعموم آتے رہتے تھے) اورپاکستان تھنکرز فورم کے صدر محمد خالد رانانے ان سے ملاقات کا وقت لیا تا کہ ان سے ملکی حالات پر گفتگو ہو سکے۔ میرے لئے یہ باعث اعزاز تھا کہ انہوں نے مجھے بھی اس ملاقات میں اپنے ساتھ رکھا،ہمارے علاوہ محترم سعید جاوید مغل اور برادرم وسیم ساجد اس ملاقات میں شامل رہے۔ جنرل صاحب سے خوب گفتگو ہوئی اور تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی پر ان سے تبادلہ خیال کا موقع ملا بالخصوص آئی ایس آئی کے حوالے سے ان کا نکتہ نظر جاننے کا موقع ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل صاحب آئی ایس آئی کے کردار کو کلیتاً آئین کے مطابق قرار دیتے اور اس کی ساری ذمہ داری بھٹو صاحب پر ڈالتے رہے کہ یہ بھٹو صاحب کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے یہ اختیار آئی ایس آئی کے لئے تفویض کیا تھا(اور یہی بات وہ بعد ازاں اپنے ہر ٹی وی انٹرویو میں کہتے رہے)۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں بالعموم ابھی تک ایسی روایات موجود ہیں کہ حکمران اپنے مخالفوں کے ارادوں سے باخبر ہونے کے لئے خفیہ اداروں کو استعمال کرتی ہیں،صرف تیسری دنیا ہی کیوں،امریکہ میں نکسن کے دور تک یہ روایت موجود رہی جس کا خمیازہ نکسن کو بھگتنا پڑا،لیکن یہاں اختلاف رائے فقط اتنا ہے کہ ملکی سیاست میں کیا آئی ایس آئی اپنے تجویز کردہ اختیار تک ہی محدود ہے؟یا اس کے اختیارات سے متاثر ہو کر تاجران سیاست اس کے در پر جھکتے ہیں یا جھکائے جاتے ہیں؟ہر دو صورتوں میں نقصان آئی ایس آئی کا ہے کہ اس کا دائرہ کار ملکی سیاست سے ہٹ کر ملک دشمن عناصر کا کھوج اور ان کی بیخ کنی ہے،جس میں آج وہ اقوام عالم میں اپنا الگ مقام اور شناخت رکھتی ہے اور ہمیں اس پر فخر بھی ہے۔ خیر یہ موضوع انتہائی حساس ہے اور اس کی حساسیت کا احساس اس پر مزید لکھنے سے روکتا ہے۔ جنرل صاحب سے رائل پیلس میں ہونے والی گفتگو انتہائی محدودوقت میں ہوئی اور تشنگی برقرار رہی جبکہ میں اور حقائق کے ساتھ جنرل صاحب کا نقطہ نظر جاننے کا خواہشمند تھا،لہذا 2010میں پاکستان چھٹی جانے سے پہلے ہی برادرم عبداللہ حمید گل سے ایک ملاقات طے کر لی اور ستمبر میں ان کے آفس پہنچ گیا۔ یہ ان کا آفس میں پہلا دن تھا اور جنرل صاحب بھی انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے لہذا خوب کھل کر باتیں ہوئی،جو اکتوبر میں شائع ہو چکی۔
اس ملاقات میں ،ایک بات واضح طورپر محسوس کی کہ ایک طرف جہاں جنرل صاحب پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے متفکر تھے تو دوسری طرف اس نظام سے بھی دلبرداشتہ تھے جو براہ راست ملک و قوم کو کچھ بھی دینے سے قاصر تھا،اس کے کل پرزے نظام کو یرغمال بنائے ہوئے تھے،قحط الرجال سے شاکی جنرل چاہتے تھے کہ عوام ان کے تجربات سے بہرہ مند اور اسلامی طرز حکومت کے عین مطابق،عوام ان کو رہبرکے طور پرمنتخب کرے۔پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کے خواہاں جنرل خود کو قیادت کے لئے پیش کرنے سے گریز کرتے رہے مگر کسی نہ کسی حوالے سے اپنی خدمات اور تجاویز ہر حکومت کو پیش کرتے رہے،جہاں ضرورت محسوس ہوتی ،سخت تنقید کرنے سے بھی نہ گھبراتے اور دوسری طرف ہر غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے کمر بستہ رہتے۔ لیکن آخر کار اسی نظام میں رہتے ہوئے انہوں نے رہبر کونسل کی تشکیل کی،دفاع پاکستان کی داغ بیل ڈالی اور پھر پاکستان میں موجود نوجوانان کی کثرت کو دیکھتے ہوئے ،تحریک نوجوانان پاکستان کی داغ بیل ڈالی،جس کی سربراہی آج کل برادرم عبداللہ حمید گل کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کو یقین واثق تھا کہ پاکستان اپنی سمت درست کر کے رہے گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کی سربراہی کا تاج بھی اسی کے سر سجے گا، یہی وجہ تھی کہ ان کا نام مسلم ممالک میں نہ صرف عزت سے لیا جاتا بلکہ ان کی باتوں کو بغور سنا بھی جاتا تھا۔ اس دور میں جنرل صاحب ایک دوسرے مشن پر کام کر رہے تھے کہ بیرونی ،غیر مسلم ذرائع ابلاغ پر مدلل انداز میں امریکہ اور اسرائیل کی چیرہ دستیوں کو ان کی عوام کے سامنے بے نقاب کر رہے تھے تاکہ عوام اپنے حکمرانوں کی دروغ گوئیوں کو جان سکیں۔ پاکستان سے محبت ،جنرل صاحب کا وہ اثاثہ تھا جسے وہ کسی صورت گنوانے کے لئے تیار نہ تھے اور فوج سے ریٹائر ہونے کے باوجود برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے حلف پاکستان کی حفاظت کااٹھا رکھا ہے نہ کہ نوکری کا،اور ایک فوجی خواہ وہ حاضر سروس ہو یا ریٹائر،ملک و قوم کی حفاظت کے لئے ہر دوصورتوں میں سر بکف رہتا ہے۔ جنرل صاحب کی آراء سے اختلاف ہو سکتا ہے،طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی منزل پاکستان کا استحکام ہی رہی،جو ہر سچے پاکستانی کی خواہش ہے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں