Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلطنت عمان کا کردار مثبت ہے، فلسطینی عہدیدار

صالح القلاب۔ الشرق الاوسط
آخری قسط
    فلسطین اسرائیل کشمکش سے متعلق امریکی موقف میں نیا پن کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے ۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطین اسرائیل مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع ہونے کے امکانات افق پر نظر آنے لگے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے فرانسیسی صدر میکرون سے جو کچھ کہا اُس سے یہی عندیہ ملتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ویسا ہی سخت معاملہ کرنے کیلئے تیار ہیں جیسا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی خاطر فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس رجحان کو تقویت صدر ٹرمپ کے اس بیان سے بھی ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 3ماہ قبل کہا تھا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ بھاری قیمت چکانی پڑیگی۔ یہ بات انہوں نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے کہی تھی۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسطینیوں کو کافی کچھ ملے گا۔
    امریکی حکومت کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ رات گئی بات گئی والی کہانی اس کے ساتھ زمانے سے چل رہی ہے۔ امریکی حکومت کسی بھی موقف پر قائم نہیں رہتی۔ اسی وجہ سے فلسطینی ، ان کے ہمنوا عرب اور دنیا بھر میں فلسطینی کاز کے حامی لوگ فلسطین کے حوالے سے امریکی حکومت کی کسی بھی بات پر بھروسہ نہیں کرتے۔فلسطینیوں کو اس حوالے سے پورا یقین ہوگیا ہے۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو اپنے امریکی ہمنواؤں کی بنیاد پر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امریکی موقف میں آنے والی تبدیلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو حکومت ِ خود اختیاری سے کچھ زیادہ اور ریاست سے کچھ کم دینے کیلئے تیار ہیں۔ فلسطینی ترجمان نے اس کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا کہ 1967ء کی سرحدوں میں فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے بغیر امن و سلامتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
    مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے منفی تصور اور مختلف فارمولوں کے مثبت خیال سے قطع نظر ایک حقیقت ایسی ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ وہ یہ کہ مسئلہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے بیشتر ممالک کے رویوں میں توجہ طلب حد تک تبدیلیاںآرہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک میں موجود یہودی حلقے بھی  تبدیلیوں کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ بین الاقوامی یہودی کانگریس کے سربراہ رونالڈلاؤڈر نے ایک فلسطینی نژاد شخصیت کے توسط سے فلسطینی صدر سے رابطے قائم کئے اور انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے فلسطینیوں کو قائل کرنے کی اُس مہم سے اختلاف ظاہرکیا جو کوشنر چلائے ہوئے ہیں۔ رونالڈ لاؤڈرنے اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا خط تک قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
    بہر حال فلسطینی مرکزی کونسل نے رام اللہ کے نئے اجلاس میں جو فیصلے کئے انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہی۔ جہاں تک داخلی تنظیمی حالات کا تعلق ہے تو حماس اور الجہاد الاسلامی تحریک کے ساتھ مصالحت کی ساری کوششیں فیل ہوچکی ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں غزہ پٹی پر اپنا کنٹرول قائم کئے ہوئے ہیں اور دونوں ایرانی شامی ایجنڈہ نافذ کررہی ہیں۔نئی بات یہ ہوئی کہ عوامی اور ڈیموکریٹک محاذ  مرکزی کونسل کے آخری اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔یہ بھی کہا جارہا ہے دونو ں نے فلسطینی قانون ساز اداروں میں اپنی رکنیت تک معطل کردی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر محمود عباس اتھارٹی میں تن تنہا رہ گئے ہیں اور مذکورہ دونوں محاذ ایران اور شام کی طرف جھک گئے ہیں۔
    اہم پہلو یہ ہے کہ فلسطینی ،  عرب ممالک اور بین الاقوامی برادری پی ایل او کو فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کئے ہوئے ہیں اور اسے 1974ء کے بعد ہونیوالے تمام اجلاسوں کے شرکاء نے امن عمل کا اختیار بھی تفویض کررکھاہے ۔
مزید پڑھیں:- - - - -سلطنت عمان کا کردار مثبت ہے ، فلسطینی عہدیدار

 

شیئر: