Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کی تجارت

جمعرات 29نومبر 2018ءکو سعود ی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
  سعودی معاشرے میں سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کا رواج سب سے زیادہ پُرخطر مانا جارہا ہے۔ اسکے باعث معاشرے کے وسائل برباد ہورہے ہیں۔ لوگوں کے حقوق ضائع ہورہے ہیں۔ ایک جانب اس کے ذریعے ٹیکس کی چوری ہورہی ہے۔ حکومت مالی وسائل سے محروم ہورہی ہے۔ معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس رواج کی وجہ سے تجارتی جعلسازی ، مطلوبہ بلز کا فقدان ، اداروں کے حقیقی حساب کتاب ناپید ہورہے ہیں۔سعودیوں کو سامان میں خامی یا خدمات میں خرابی کی صورت میں اپنے حقوق نہیں ملتے۔ بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ مختلف اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ دکانوں میں کام کرنے والے سعودیوں کا تناسب 25فیصد سے زیادہ نہیں جبکہ غیر ملکی 75فیصد ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ منفی اثرات کے باوجود مذکورہ رواج اپنی جگہ قائم ہے۔ وزارت تجارت و سرمایہ کاری نے 1439ھ کے دوران مذکورہ رواج کے 1195 مقدمات پبلک پراسیکیوشن کو بھجوائے۔ 15کی تشہیر مقامی اخبارات میں کی گئی۔ سعودی وزارت تجارت و سرمایہ کاری 3نکاتی پروگرام کے تحت سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کے انسداد کی مہم بھی چلائے ہوئے ہے۔ 
پہلا نکتہ یہ ہے کہ سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کی سب سے بڑی بنیاد ثانوی درجے کے تجارتی معاہدے ہیں۔ انہیں قابو کیا جارہا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تجارتی لین دین کے نظام سے غیر ملکی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس نظام میں موجود سقم کو دور کیا جارہا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تجارتی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے کیونکہ سادہ طرز کے تجارتی اداروں پر تارکین قابض ہیں اور وہ یہ ادارے سعودیوں کے نام سے قائم کئے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: