Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغربی ممالک میں اسلامی مراکز

ڈاکٹر عبداللہ الزازان ۔ الریاض
اگر ہم مغربی دنیا میں اسلامی مراکز کا علمی اور تجزیاتی مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کے یہاں دینی موضوعات پیش کرنے کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مغرب میں اسلامی مراکز کاعلمی اور اصولی مطالعہ کیا جائے اور انکے کردار کا ٹھوس بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے۔
1986ءکے موسم گرما میں بین الاقوامی باکسر محمد علی کلے واشنگٹن میں ”المبتعث“ مجلے کے دفتر ہم سے ملنے کیلئے آئے تھے۔ وہ ان دنوں امریکہ کے شہروں اور صوبوں میں دعوتی دورے پر تھے۔ وہ وارث الدین محمد مسلم دانشور کی کتاب” نماز اور اسلام“ تقسیم کررہے تھے۔ محمدعلی نے مجھ سے اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے اس وقت کہا تھا کہ میں کئی مرحلوں میں حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ ابتداءمیں امت الاسلام جماعت کے ماتحت تھا۔ چند برس بعد میرا تعلق وارث الدین محمد سے استوار ہوگیا۔ انہوں نے مجھے دنیا کو اپنے انداز سے دیکھنا سکھایا۔ انہوں نے مجھے آخرت اور اسکی حقیقت سے آگاہ کیا۔ وہ سمجھانے کا بڑا سلیقہ رکھتے تھے۔ ان سے ملاقاتوں نے میری زند گی تبدیل کردی۔ ان سے مل کر محسوس ہوا کہ میں اپنی تخلیق کا ہدف پورا کرسکتا ہوں۔ زندگی کے آغاز میں حیران ، پریشان اور کمزور تھا۔ اب میری منزل اور شاہراہ دونوں متعین ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تنہا نہیں بلکہ ایک امت کا حصہ ہوں۔ میں نے حقیقت تک بڑی رسائی کی کوشش کی۔ حقیقت کا عرفان حاصل ہونے پر میں نے اپنے تمام اثاثے، ادارے اور کمپنیاں فروخت کردیں۔ میں نے اپنا نجی گھر بھی ختم کردیا۔ اب میں اسلام کے پرچار کیلئے یکسو ہوں۔ اسلام کے پرچار کا واحد راستہ عوام سے گفت و شنید ہے۔ میں نے متحرک گھر خرید لیا ہے۔ اسلام پر بہت ساری کتابیں جمع کرلی ہیں۔ یہ کتابیں میں اپنے دستخط سے تقسیم کرونگا۔ طویل سفر طے کرکے واشنگٹن پہنچا ہوں۔ میں نے دعو ت کا نیا طریقہ اپنایا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ شہروں کی سڑکوں اور اجتماعات کے مرکز جاﺅں ۔ لوگ میری جانب آئیں، مجھے دیکھیں۔ میں کتاب پر دستخط کرکے انہیں پیش کروں۔ اب تک 50ہزار سے زیادہ نسخوں پر دستخط کرکے تقسیم کرچکا ہوں۔ 
محمد علی کلے ہماری زندگی میں آنے والے بہت سارے لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں جاننے کیلئے ہم وقت نہیں دیتے۔ واشنگٹن میں اسلامی مرکز جانا ہوا جہاں میری ملاقات مرکز کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ جوخ سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ انکا مرکز مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان پل کا کام انجام دے رہا ہے۔ 
مغرب میں اسلامی مراکز ایشیائی ثقافت اورغیر عربی افریقی ثقافت کا مجموعہ ہے۔ عرب، ہندوستانی، پاکستانی، ترکی یا جنوبی امریکہ سے آنے والے ڈاکٹر، وکیل اورانجینیئر اسلامی مراکز چلا رہے ہیں۔ بیشتر مراکز شوریٰ کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ بعض مراکز خواتین کو انتخابی عمل میں شریک کررہے ہیں۔ بعض تبلیغی جماعت اور تصوف کے طریقوں سے منسلک ہیں۔ افریقی نژاد امریکی اپنے یہاں کے رسم و رواج کے مطابق کام کررہے ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ مغرب میں اسلامی مراکز کا تعارف کرانے والے مضامین علمی حقائق سے عاری ہیں۔ ان مراکز کی حقیقت جاننے کیلئے زیادہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: