Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کے استعفی اور اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) اس سال جولائی میں عام انتخابات ہوئے۔ تحریک انصاف نے حکومت بنائی۔ ا س کے خلاف مسلسل یہ الزام لگتا رہا کہ پی ٹی آئی جیتی نہیں جتوائی گئی تھی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر دیا جائے ۔ بھلا ہو بلاول بھٹو کا جس نے انتہائی اہم کردار ادا کر کے معاملات کو بڑھنے سے بچالیا۔ یہ پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد کا ایسا فیصلہ تھا کہجمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔ پارلیمنٹ میں ضرور جائیں گے۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ جن کی 30 سال کی سیاست ختم ہو چکی تھی بے بس ہوکر رہ گئی۔ گو کہ وہ اب تک جمہوری بساط لپیٹنے پر تلے نظر آتے ہیں لیکن اب ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا کوئی نہیں رہا، جماعت اسلامی تک ان کے موقف کی حمایت سے دستبردار ہوگئی۔ آج 5 مہینے بعد اس بحث نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ ایک بین الاقوامی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) جس نے الیکشن کی شفافیت پر پہلے تو کلین چٹ دے دی تھی، اپنی نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ 95 فیصد اسمبلیوں کی نشستوں کے نتائج کے لئے فارم 45 جو کہ اہم قانونی ضرورت ہے جاری نہیں کیا گیا۔ مطلب تو پھر یہی ہوا کہ انتخابات جعلی تھے یا پھر ان کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت پھر سے مل گئی ہے۔قومی اسمبلی کی 249 نشستوں کے نتائج جن پر 78,467 فارم 45 جاری کئے جانے والے تھے وقت پر پولنگ ایجنٹوں کو جاری نہیں کئے گئے جو کہ الیکشن قوانین کے مطابق لازمی جاری کرنے ہوتے ہیں۔ فافن نے اپنی آخری آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی 48نشستوں کے نتائج پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں لئے گئے۔ الیکشن 270 نشستوں پر لڑے گئے تھے جن میں سے 249 کے نتائج الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں 98 فیصد نشستوں پر یہ فارم جاری نہیں کیے گئے، سندھ میں ان کا تناسب 97 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا میں 95 فیصد اور 94 فیصد پنجاب میں۔ اسلام آباد فیڈرل کپیٹل ایریا میں صورت حال قدرے بہتر تھی۔ الیکشن ایکٹ 2017ءکی شق 90(12) کے تحت تمام فارم 45 اور ساتھ فارم 46 پر پولنگ آفیسرز اور پولنگ ایجنٹوں کے دستخط لازمی ہونے چاہئیں۔ فافن نے اپنی رپورٹ میں الیکشن قوانین میں بہتر تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے۔ دیکھیں کہیں ملک میں اب نئی بحث کا آغاز نہ ہوجائے کہ عمران خان استعفیٰ دیں اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا معاشی بحران میں گھرا ہوا ملک کیا نیا بوجھ اٹھا پائے گا؟ سوال اہم ہے نتیجہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ 
 

شیئر: