Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ میری نہیں ان کی دنیا ہے

***وسعت اللہ خان ***
2 روز قبل (10 دسمبر) انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حسبِ توقع 2 یا 3 چینلز کی جانب سے رابطہ کیا گیا کہ اس موقع پر اسٹوڈیو میں آ کر یا بذریعہ ڈی ایس این جی کچھ کہہ دیجئے۔ایک این جی او نے نیوتا دیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ہم نے سول سوسائٹی کی ایک واک منظم کی ہے۔آپ بھی آجائیں تو اچھا لگے گا۔ایک سیمینار کے منتظمین نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔مجھے ہر اہم عالمی دن بالخصوص انسانی حقوق کے دن اس طرح کی سرگرمیاں منظم کرنے والوں کے اخلاص پر قطعا کوئی شبہ نہیںمگر شاید بڑھتی عمر کے ساتھ آنے والے سنکی پن کے سبب مجھ جیسے لوگ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ کسی بھی مسئلے کے کنوئیں سے بھر بھر پانی ڈول نکالنے سے کیا فائدہ جب اس کنوئیں میں پڑا کتا نکالنے کی سکت ہی نہیں۔عدم مساوات نامی اس کتے کو سب جانتے ہیں مگر دن بدن یہ اتنا پھولتا جا رہا ہے کہ شاید ایک دن ہمیں یہ متعفن کنواں ہی ترک کرنا پڑ جائے۔عدم مساوات  2دھاری تلوار ہے۔ کچھ کو اتنی طاقت دے دیتی ہے کہ باقیوں کے پاس مزاحمت کے لئے بھی کچھ نہیں بچتا۔اب تو  لگتا ہے کہ ترقی وہ جال ہے جس میں چند لوگ پوری دنیا کو جکڑ کے دائمی غلام بنانا چاہتے ہیں۔یہ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ ریاست کا ادارہ بھی ان کے آگے کچھ نہیں بیچتا۔بات اب محرومی اور نا محرومی کے سوال سے آگے بڑھ کے جینے اور مرنے کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کی شکل کچھ یوں ہے کہ دنیا کی ایک فیصد آبادی (8 کروڑ)کے قبضے میں جتنے وسائل ہیں وہ باقی 99 فیصد آبادی (7ارب 92کروڑ) کے زیرِ تصرف وسائل کے برابر ہیں۔صرف8 برس پہلے تک اس دنیا کے 388 امیر ترین لوگوں کے قبضے میں جتنی دولت تھی وہ اس دنیا کی آدھی آبادی (4ارب) کے زیرِ تصرف مجموعی وسائل سے بھی زیادہ تھی۔2014میں ان 388 امیر ترین افراد کی تعداد گھٹ کے 80 رہ گئی اور آج صرف 62 امیر ترین افراد آدھی دنیا کے برابر دولت کے مالک ہیں۔
یہ 62 جو ایک بس میں سما سکتے ہیں انہوں نے باقی دنیا کو بے بس کر رکھا ہے ۔اگلے 2 برس میں یہ 62 بھی گھٹ کے 50رہ جائیں گیاور اگر یہی رفتار رہی تو 2030 میں صرف ایک امیر العالم (سپر رچ )  ہی پوری دنیا کے وسائل کنٹرول کر رہا ہوگا(مگر مجھے خوش فہمی ہے کہ شاید ایسا دن نہ آئے۔)
ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی اور عالمگیری معیشت کا تصور غربت اور عدم مساوات بڑھا نہیں رہا کم کر رہا ہے۔مثلا  ایک ارب 30کروڑ ہندوستانیوں میں سے 40 کروڑ اب متوسط طبقہ کہلاتے ہیں۔چین کی 40فیصد آبادی پچھلے 20 برس کے دوران انتہائی غربت سے نکل کر نیم متوسط معاشی دائرے میں داخل ہو چکی ہے۔پاکستان میں بس خیابان ِ معیشت(اکنامک کاریڈور)مکمل ہونے کی دیر ہے۔ سب بنیادی دلدر دور ہوجائیں گے مگر میں آئی ایم ایف ، عالمی بینک جیسے ساہو کاروں اور آکسفیم جیسی عالمگیر فلاحی تنظیموں کے اعداد و شمار کس چولہے میں ڈالوں جو ہماری ترقی یافتہ دنیا کی مجموعی تصویر یہ دکھا رہے ہیں کہ2010 سے 2015 کے درمیان صرف 5برس میں اس دنیا کی آدھی آبادی کی دولت میں 41 فیصد کمی ہوئی ہے اور امیر ترین 62 افراد کی مجموعی دولت 5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر تقریباً5  15 کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
مگر یہ 15 کھرب ڈالر تو وہ ہیں جو نظر آ رہے ہیں۔پرانے زمانے میں بدشکل خونخوار دیو زاد جادوگر دلکش پریوں کو کوہِ قاف کے قلعے میں قید رکھتے تھے جہاںشہزادہ گلفام کے سوا کسی آدم زاد کو قدم رکھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔آج کی دنیا میں یہ کوہ قاف پانامہ ، برمودا ، کیمن آئی لینڈ ، ورجن آئی لینڈ وغیرہ جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے ۔ ان طلسماتی کوہ قافوں کے لاکرز میں امیر ترین افراد ، اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لگ بھگ 80 کھرب ڈالر ٹیکس اور احتساب کی گرم ہوائوں سے محفوظ پڑے ہیں۔کرپشن اور ٹیکس چوری پر نگاہ رکھنے والے سرکردہ عالمی اداروں اور ماہرین کے مجموعی اندازوں کا اوسط نکالا جائے تو نقشہ یوں ہے کہ باقی چور تو رہے ایک طرف صرف بین الاقوامی کمپنیاں ہی ہر سال درجنوں ریاستوں میں ایک سو ارب ڈالر کی ٹیکس چوری کرتی ہیں۔اگر آف شور کمپنیوں کے لاکرز میں پڑے یہ 80 کھرب ڈالر باقاعدہ عالمی معیشت کا حصہ بن جائیں تو ان سے ریاستوں کو190 بلین ڈالر کی سالانہ کی اضافی ٹیکس آمدنی ہو سکتی ہے۔اس وقت براعظم افریقہ کی 30 فیصد دولت کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ سمندر پار اکائونٹس میں جمع ہے۔اگر یہ 30 فیصد افریقی معیشت کا حصہ بن جائیں تو افریقی ممالک کو 14 ارب ڈالر سالانہ کا اضافی ٹیکس مل سکتا ہے۔
حل کیا ہے ؟ بے لگام انسانی لالچ اور سامنے والے کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کر پی جانے والے ڈریکولائی نظامِ معیشت کو عوام دوست بنانے کے لئے بظاہر کوئی ٹھوس شریفانہ حل نہیںمگر پنڈت لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر آف شور بینکنگ کو ریاستی بینکنگ نظام میں ضم کرنے پر سب ریاستیں متفق ہو جائیں ، اگر یہ اصول کہ سب کو ٹیکس دینا چاہئے  اس اصول سے بدل جائے کہ سب سے ٹیکس لینا چاہئے  اور اگر یہ تہیہ کر لیا جائے کہ جو بھی ٹیکس وصولا جائے گا وہ بنیادی عوامی سہولتوں اور ادارتی اصلاحات پر ہی خرچ ہوگا اور اگر زیادہ سے زیادہ آمدنی اور کم سے کم آمدنی کے تفاوت کو کنٹرول کرنے کا نظام بنا لیا جائے تو شائد اس گلوبل ولیج میں 62 چوہدری اور 7 ارب 92 کروڑ غلام نہ ہوں۔
 

شیئر: