Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرندوں کی چہچہاہٹ،منزہ کی آواز، معطر جھونکے، خوبصورت سماں

رشید احمد اور عائشہ بیگم نے اپنے آشیانے کی بنیادیں اسلامی تعلیمات عالیہ کے مطابق استوار کی تھیںجو چٹان سے زیادہ مضبوط اور پائدار تھیں
ناہید طاہر۔ ریاض 
صبح صادق کا پرنور اجالا کرہ ارض پر پھیل چکا تھا۔ کائنات کا ہر ذرہ اللہ رب العزت کی حمد و ثناء میں مشغول تھا۔ چڑیوں کی خوشگوار چہچہاہٹ رب کائنات کی وحدانیت کا ثبوت دے رہی تھی۔چہار سو ایک  سکون چھایا ہوا تھا۔وسیع آسمان ،مشرق سے نمودار روشنی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جیسے سرشاری کے عالم کو مزید خوبصورت بنا رہا تھا اورزمین پر بادصباکے تازہ جھونکھوں سے محظوظ ہوتا ہوا تازگی بخش فضاء کو برقرار رکھے بہت پر امن اور مخمور نظر آرہاتھا۔نیند سے جاگنے والی ہر نظر کو جیسے دلی سکون بخش رہا تھا۔
رشید احمد نے نماز فجر ادا کی اور چہل قدمی کے ارادے سے مسجد سے باہر نکل گئے۔سورج کی مسکراتی کرنیں بانہیں پھیلائے گنگنا رہی تھیں۔کھلا آسمان سورج کی سنہری کرنوں سے منور نظر آرہا تھا۔راستے میں ہمیشہ کی طرح رشید احمد کی ملاقات اپنے محلے کے ساتھیوں سے ہونے لگی۔ معمول کے مطابق محلے کے ساتھیوں نے اپنے مسائل بیان کئے۔رشید احمد بڑی محبت، انکساری اور خلوص کے ساتھ نہ صرف توجہ سے ان کی باتیں سنتے بلکہ انہیں تسلی بخش حل سے بھی نوازتے۔لوگ خوش ہوجاتے، ان کے پرمتفکر چہروں پر سکون کی لہر دوڑ جاتی۔
رشید احمد کو اپنے آبائی وطن سے بے انتہا محبت تھی۔ان کی عمر کا تمام حصہ یہیں گزرا اور زندگی کی اچھی ، بری یادیں یہیں سے وابستہ تھیں۔ اس محلے سے انہیں بے انتہا انسیت تھی۔گھر میں داخل ہو کرانہوں نے بلند آواز میں سلام کیا اور اپنی اہلیہ عائشہ بیگم کو آواز دی۔وہ جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو سلام کے بعد سب سے پہلے اپنی شریک حیات کو اسی طرح آواز دیتے۔ عائشہ بیگم اس ایک صدا پر ہمیشہ کی طرح دوڑی چلی آئیں۔ان کے معصوم اور خوبصورت چہرے پر شوہر کے تئیں بے پناہ محبت جھلملا رہی تھی۔ خوبصورت مسکان کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور معمول کے مطابق شہد اورنیم گرم پانی شوہر کو پیش کیا۔ رشیداحمد آنگن میں برگد کے درخت کے نیچے بچھے تخت پر سکون سے بیٹھ گئے اور پیالی سے گھونٹ بھرا۔ 
ہمیشہ کی طرح بڑی بیٹی منزہ ، قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول تھی اور اس کی خوبصورت قرأ ت ماحول اور سماعت میں رس گھول رہی تھی۔ شاخوں پر بیٹھے پرندے بھی اللہ کریم کی حمد وثناء میں مشغول تھے۔ان کی چہچہاہٹ،منزہ کی قرأ ت اور بادسحر و پھولوں سے معطرجھونکے، بہت خوبصورت سماں باندھ رہے تھے۔ منزہ کی آواز بے انتہا پر کشش اور خوش الحان تھی۔آنگن میں چہچہاتے پرندے یوں سمجھئے کہ کئی سالوں سے اس آواز سے مانوس تھے۔ایسا لگتا تھا کہ یہ پرندے فقط اسی کی پر کشش آواز کے سحر سے محظوظ ہونے یہاں آتے ہیں۔گھونسلے کے پرندے بھی شرف میزبانی کا حق ادا کر کے ان کی چہچہاہٹ میں اپنی آواز ملا کرجیسے منزہ کے ہمراہ ربِ کائنات کی تسبیح بیان کرنے لگتے۔رشید احمد کو اپنے آنگن کی صبح صادق ،دنیا کے ہر منظر سے افضل اور خوبصورت لگتی تھی۔وہ پوری توجہ سے بیٹی کی زبانی قرآن کریم کی تلاوت کی سماعت کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد آواز تھم گئی۔ منزہ کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ابو دودھ کا پیالہ لی لیجئے ۔ وہ سامنے کھڑی مسکراہٹ بکھیر رہی تھی ، رشید احمدنے اپنی بند آنکھوں کو کھولا اور سر اٹھا کر بیٹی کو پیار سے دیکھنے لگے پھر مسکرا کر وفور محبت سے گویا ہوئے، ’’یوں لگتا ہے کہ اللہ پاک نے میری بیٹی کواس آب وگِل سے بنایا ہے جس میں صرف اور صرف شہد اور شیرینی استعمال کی گئی،ماشاء اللہ۔جیسے کوئل کی کوک، جھرنے اورجلترنگ کی مٹھاس، ندیوں کا شور، سمندر کا تلاطم۔‘‘ 
ابو جی! منزہ بے اختیار شرما گئی اور اس کے خوبصورت رخساروں پر شفق کی سرخی پھیل گئی۔رشید احمد مسکراتے ہوئے بیٹی کے سرخ رخسار دیکھنے لگے اور بڑی شفقت سے کہنے لگے ارے اتنا ہی نہیں، شفق کی لالی، آفتاب کی تپش ، مہتاب کی ٹھنڈک ، سمندر کا سکوت، آبشار کی شوخی ، صحرا کی تپش ،ممتا کی ٹھنڈک ، جیسے کائنات کی ہر خوبصورتی میری منزہ کی تخلیق میں رچ بس گئی ہے۔ ابو جی بس کریں ناں! وہ خوش ہوتی ہوئی شرمانے لگی۔تب عائشہ بیگم ہنس کر گویا ہوئیں۔ اب بس کریں ! کہیں یہ مغرور نہ ہو جائے۔ پھرخود ہی بڑے لاڈ سے دعائیں دینے لگیں۔رب العالمین ،میری بیٹی کا نصیبہ بلند فرمائے۔ رشیداحمد نے پیار سے آمین کہا۔ منزہ نے بڑی عقیدت سے والدین کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے پلکیں جھکائیں اور زیر لب آمین کہہ گئی۔
رشید احمد کا چھوٹا ساکاروبار تھا۔خوش حال کنبہ ، منزہ سب سے بڑی تھی۔ اس کے بعد فرحین جو 13 سال کی تھی۔ شاہین 10سال کی اور عامر7 سال کا تھا جو سبھی کا چہیتاتھا۔رشید احمد اور عائشہ بیگم نے اپنے آشیانے کی بنیادیں اسلامی تعلیمات عالیہ کے مطابق استوار کی تھیںجو چٹان سے زیادہ مضبوط اور پائدار تھیں۔اس عمارت کو اخلاقیات کے بہترین وعمدہ رنگوں سے سجایاگیا تھا۔ رشید احمد کا خاندان اخلاقیات اور پیار کا گہوارہ بننے کے باعث معاشرے میں ایک انفرادی حیثیت کا حامل تھا۔
منزہ پی یو سی سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔گھر کے ماحول کے زیراثرخود اپنے وجود کے حصار میں مقید، کبھی کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی تھی۔ بہت کم لوگوں سے دوستی کرتی یا پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کو بہت کم لوگ پسند آتے جنہیںوہ دوستی کے لائق سمجھتی تھی۔ 
کالج میں ان دنوں بیت بازی کے مقابلے کی تیاری چل رہی تھی۔گزشتہ چار سالوں سے ان کاکالج ناکامی کا سامنا کررہا تھاجس کہ وجہ سے فوزیہ میم ناراض تھیں۔ ساجد نامی لڑکا اس گروپ کا لیڈر تھا جو ہر مقابلے میں ہار کی سوغات لئے کالج لوٹتا۔ جیت کا تمغہ کالج کی گیلری اور فوزیہ میم کی دسترس سے جیسے جیسے دور ہوتا گیا ،ویسے ویسے فوزیہ میم کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔
یوں تو منزہ کو شاعری سے بہت دلچسپی تھی اور اسے اشعار بھی بے شمار یاد تھے لیکن اس کی خاموش مزاجی نے اس کے اس ہنر کو گمنامی کی چادر سے ڈھک دیاتھا۔جس کی وجہ سے اس کی یہ خوبی سبھی کی نگاہوں سے اوجھل رہی۔وہ روز ہی آڈیٹوریم کے ایک گوشے میں بیٹھی ، خاموش تماشائی بنی ، طلباء کی مشقِ بیت بازی سے محظوظ ہوتی۔کبھی کبھی اشعار کی تاخیرپر وہ الجھن محسوس کرتی۔آج بھی وہ آڈیٹوریم میں موجود مشق سے محظوظ ہورہی تھی۔ساجد کئی بار شعر کہتا ہوا درمیان میں شعر بھول جاتایا بروقت اشعار ہی بول نہیں پاتاتھاجبکہ وہ ٹیم لیڈر تھا۔کسی حرف پر آکر ساری ٹیم رک گئی تھی۔منزہ نے آخر تھک کر اس حرف کے کئی اشعار پڑھے۔ اس کے ذہن میں ہر حرف پر کئی کئی اشعار موجودتھے۔فوزیہ میم حیران ہو کراس نازک اندام لڑکی کو دیکھتی رہیں۔پھر اچانک ہی ایک فیصلہ یہ ہوا کہ اسے ساجد کی جگہ لے لیا گیا اور اس بے چارے کومقابلہ سے برطرف کردیا گیا۔ساجد کے لئے یہ بے عزتی کامقام تھامگر اس نے کچھ نہیں کہا ۔چپ چاپ اٹھ کر اپنی کرسی منزہ کے لئے پیش کردی اور وہاں سے نکل گیا۔
منزہ پر جیسے حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بے پناہ مسرت کا مقام تھا لیکن دل کے کسی حصے میں یہ احساس نشتر کی طرح  پیوست ہونے لگا۔وہ جانے انجانے میں ساجد کی مجرم بن گئی لیکن بیت بازی کا حصہ بننا زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔اس نے ساجد سے دل ہی دل میں معذرت چاہی اور اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ مشق تین دن جاری رہی۔اس نے دیکھا ہر دن ساجد آڈیٹوریم کے آخری حصے میں بیٹھا اس کے سراپے کو تکتا رہتا۔منزہ کی نگاہیں اکثر اس کی خاموش نگاہوں سے الجھ جاتیں۔منزہ کا خیال تھا کہ وہ اپنی توہین پر کبھی اس کے سامنے نہیں آئے گالیکن پتا نہیں وہ کس مٹی سے بنا تھا،ہر بار اپنی خموش نگاہیںلئے اس کے سامنے آجاتا۔ عمر کے اس حصے میں پہلی بار منزہ کو دل کی دھڑکنیں اجنبی سی لگیں کیونکہ ان کا شور دماغ کو منتشر کرنے لگا تھا۔ ایک ایسی دھن تھی جس کا سحر حواس پر چھانے لگا تھا۔شاید عمر کا تقاضا تھا۔
(باقی آئندہ:ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
  
 

شیئر: