Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت اپوزیشن ٹف ٹائم دینے کے مُوڈ میں‘

مسلم لیگ ن کی میزبانی میں 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں موسم سرما کے شروع ہوتے ہی سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔ حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم نے تین بڑے جلسوں کے بعد 13 دسمبر کو لاہور میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس جلسے کی میزبانی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس ہے۔
پارٹی نے زور شور سے جلسے کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں، لیکن دکھائی ایسے دے رہا ہے کہ حکومت اس ’زور شور‘ کو ٹف ٹائم دینے کے موڈ میں ہے۔
اس کی پہلی جھلک سات نومبر کو پارٹی کے لاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کی گرفتاری پر نظر آئی۔ عمران نذیر کو مریم نواز کی نیب پیشی کے دوران ہونے والے پولیس اور لیگی کارکنوں کے تصادم کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران نذیر کی گرفتاری ڈرامائی انداز میں کی گئی۔ ان کی گاڑی کو ٹریفک پولیس کے ذریعے رکوایا گیا اور اس کے بعد تھانہ چوہنگ کی پولیس نے گاڑی سمیت انہیں تحویل میں لے لیا۔
پارٹی کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت اس وقت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ گرفتاریاں کر رہی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ عمران نذیر کو کیسے گرفتار کیا گیا۔ جیسے سی سی ٹی وی کیمروں سے ان کی نگرانی کی جا رہی ہو، اور ٹریفک پولیس کا ناکہ لگوا کر لاہور پولیس گھات لگا کر بیٹھی تھی۔ پہلے یہ ڈرامہ کیا گیا کہ گاڑی مطلوب ہے ظاہر ہے ٹریفک پولیس اور کیا موقف لیتی۔ پھر بلی تھیلے سے باہر آگئی اور اب حقیقت سب کے سامنے ہے۔‘

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ گرفتاریاں کر رہی ہیں (فوٹو: فیس بک)

معاملہ خواجہ عمران نذیر کی گرفتاری پر ختم نہیں ہوا بلکہ ان کی گرفتاری کے خلاف تھانے کے باہر احتجاج کرنے والے لیگی کارکنوں کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔
پنجاب بھر میں اس وقت لیگی قیادت کے خلاف سامنے آنے والے مقدمات کی تعداد نو ہو چکی ہے۔ ان میں چار لاہور، تین فیصل آباد اور دو گوجرانوالہ میں درج کیے گئے ہیں۔
لاہور جلسے کو کامیاب بنانے اور گرفتاریوں سے بچنے کے لیے لیگی قیادت نے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اپنی عبوری ضمانتیں کرواتے رہیں۔
پیر نو نومبر کو 58 لیگی رہنماؤں اور کارکنوں نے نیب آفس تصادم کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے اپنی ضمانتیں کروائیں۔ اس مقدمے میں کل 131 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔
رانا ثنا اللہ سمجھتے ہیں کہ ’عبوری ضمانتیں کوئی حل نہیں ہے کیونکہ ان مقدموں میں سینکڑوں تو نامعلوم ہیں، ایسے ہی کسی کو بھی اٹھا کر یہ نامزد کر دیں گے۔ یہ ضمانتیں حکومت کو بہانہ نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے کروائی گئی ہیں، لیکن حکومت باز نہیں آئے گی اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘
پیر کے روز ہی نیب نے لاہور ہائی کورٹ میں رانا ثنا اللہ کے مقدمے کی جلد سماعت کی درخواست بھی دائر کر دی ہے۔
ہیروئین کیس سے ضمانت کے بعد نیب نے لیگی رہنما کو اثاثوں کے کیس میں طلب کر رکھا تھا تاہم انہوں نے ہائی کورٹ میں ممکنہ گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کر دی تھی اور عدالت نے وقتی طور پر ان کی گرفتار روک دی تھی۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کی حکمت عملی ہے کیا؟

محکمہ داخلہ پنجاب کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت نے اپوزیشن کو لاہور میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے کئی منصوبہ بندیاں زیر غور ہیں۔ اس میں گرفتاریاں بھی ہوں اور یہاں تک سوچا جا رہا ہے کہ اگر کورونا کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو لاک ڈاؤن اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگانے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔‘
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ گرفتاریاں معمول کی بات ہے اور اب مزید بھی ہوں گی۔ جب آپ ملکی اداروں پر حملے کریں گے تو قانون تو حرکت میں آئے گا۔ خواجہ عمران نذیر کی گاڑی میں پتھر لائے گئے تھے اور یہ گاڑی سی سی ٹی وی سے شناخت ہوئی، جیسے ہی شناخت ہوئی تو قانون حرکت میں آگیا اور یہ مستقبل کے لیے مثال قائم ہو رہی ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے۔‘
تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان گرفتاریوں کا تعلق لاہور جلسے پر اثرانداز ہونے سے ہے۔

حکومت مخالف اتحاد نے حکومت کے خلاف جلسے شروع کر رکھے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ان کے جلسوں کی پروا نہیں، اگر جلسہ خراب کرنا ہوتا تو ہم گوجرانوالہ کا جلسہ خراب کرتے وہ ہمارے لیے آسان بھی تھا۔
ایک سوال کے جواب میں کہ اگست کے مقدمے میں گرفتاریاں اب کیوں کی جا رہی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ’یہ قانونی معاملات ہیں انہوں نے گاڑیاں چھپا دی تھیں۔ ابھی بھی خواجہ عمران نذیر اس گاڑی کو باہر لے کر آئے جو اس دن حملے میں استعمال ہوئی تھی۔ اب ہر چیز کمپیوٹرائزڈ ہے، کیمروں نے مطلوب گاڑی کی نشاندہی کی تو اس میں خواجہ عمران سوار تھے تو گرفتاری تو ہونا تھی۔ یہ سیاسی انتقام نہیں ہے۔‘

شیئر: