Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام نے راہ حق دکھائی، مجبور نہیں کیا

کائنات کی تمام چیزیں اس کیلئے مسخر کر دی گئیں،شرف و مجد کا یہ مرتبہ ہر انسان کو  حاصل ہے، اس میں عقیدے اور رنگ و نسل کا امتیاز نہیں

 
یہ ساری کائنات جس میں عالم آفاق اور عالم انفس دونوں شامل ہیں، ہر لحاظ سے وحدت الٰہ کا مظہر ہے مگر اس طرح کہ کائنات میں موجود تمام ذی روح اور غیر ذی روح مخلوقات و موجودات کے درمیان ظاہری فرق بھی پایا جاتاہے اور ان کے درمیان ایک وحدت کا رشتہ بھی موجود ہے۔ کثرت میں وحدت اس تمام کائنات میں جاری و ساری وہ اساسی اصول ہے جس نے اسے اس کے لئے لازمی ترتیب و تنظیم بخشی ہے۔ وحدت کے اسی اصول کے تحت کائنات کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ ایک باہمی ربط و انحصار کی بنیاد پر ہم رشتہ ہیں۔ خلائے بسیط میں موجود سیارے ایک دوسرے کے درمیان کشش کے تحت اپنے اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اور اسی طرح انسانی جسم کے تمام اجزاء اور اعضاء بھی ایک گہرے اندرونی ربط و ترتیب کی بنیاد پر زندہ و متحرک ہیں۔
 
خالق کائنات نے جو تنوع مادی کائنات کو بخشا ہے، اس کو انسانوں کے درمیان بھی روا رکھا ہے۔ یہی تنوع اور رنگا رنگی ہی اس کائنات اور دنیا میں موجود مختلف سرگرمیوں اور زندگی کی چہل پہل کی ضامن ہے۔ قرآن کریم نے انسانوں کے اس ظاہری فرق و اختلاف کو ایک بڑے الٰہی منصوبے کا مظہر اور اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ نے انسانوں کی فطرت ایک بنائی ہے:’’وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو۔‘‘(الروم) ۔
 
لیکن ان کے ذہن و مزاج اور عقل و فکر کو مختلف بنایا۔ فرق و اختلاف رنگ ونسل میں بھی رکھا اور طرز وبود وباش میں بھی۔ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے آدمیو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔‘‘(الحجرات) ۔
 
اس فرق و اختلاف کو اللہ نے اپنی نشانی قرار دیا:’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمان اور زمین کا بنانا اور طرح طرح کی بولیاں تمہاری اور رنگ ۔‘‘(الروم) ۔
 
انسان کے اسی ذہنی و فکری فرق کا نتیجہ ہے کہ انہوںنے زندگی گزارنے کے لئے مختلف راہیں منتخب کیں جس طرح بول چال، رہن سہن اور بود و باش میں ان کے انداز جدا جدا تھے، اسی طرح فکرو عقیدہ میں بھی ان کی راہیں جدا ہوئیں اور منزلیں بھی مختلف۔ قرآن نے اس حقیقت کی جانب ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک رستہ پر کر ڈالتا اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہتے ۔‘‘(ہود)۔
 
یہیں سے مختلف نظریات، عقیدے اور مذاہب وجود میں آئے۔
انسانی تاریخ اور آسمانی ہدایت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں مختلف عقائد اور نظریات انسانی گروہوں کے درمیان موجود رہے ہیں۔ آسمانی ہدایتوں نے حق و صداقت کی روشنی تو ضرور فراہم کی ہے لیکن نہ تو تمام انسانی گروہوں کو ایک عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور نہ ہی مخصوص عقیدہ کے سوا دوسرے عقائد رکھنے والوں کو انسانی حقوق سے محروم کرنے کی وکالت کی گئی ۔اسی بات کو ایک اور انداز سے یوں کہا گیا ہے: ’’وہ ہر کسی کے واسطے ایک جانب ہے یعنی قبلہ کہ وہ منہ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت کرو نیکیوں میں۔ جہاں کہیں تم ہوگے کرلائے گا اللہ تم کواکٹھا ۔‘‘(البقرہ) ۔
 
بنیادی تعلیم کی دعوت کے ساتھ مذہب کی مختلف شکلوں میں رواداری برتنے کاحکم دیاگیا۔ قرآن حکیم میں ہے:’’ہر امت کے لئے ہم نے مقرر کر دی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح بندگی کرتے ہیں۔ سو چاہئے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اور تو بلائے جا اپنے رب کی طرف، بے شک تو ہے سیدھی راہ پر سوجھ والا۔ اور اگر تجھ سے جھگڑنے لگیں تو تو کہہ کہ اللہ بہتر جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ اللہ فیصلہ کرے گا تم میں قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی ۔‘‘(الحج)۔
دوسری جگہ ہے:’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کو ایک دستور اور ایک راستہ دیا۔ اگر اللہ تعالی چاہتا تو تم کو ایک دین پر کردیتا لیکن وہ تم کو آزمانا چاہتاہے، اپنے دیے ہوئے احکام میں۔ لہذا تم نیکیوں میں سبقت کرو ۔‘‘(المائدہ) ۔
ایک اور جگہ ہے’’اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں کہ وہ اللہ کو بلا سمجھے بے ادبی سے برا بھلا کہنے لگیں ۔‘‘(الانعام)
 
یہ آیتیں سابقہ شریعتوں کے بارے میں رواداری کا حکم دیتی ہیں۔مدینے کے اولین اسلامی معاشرے میں عیسائی، یہودی اور دیگر عقائد کے لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ موجود تھے اور اسلام جو امن و آشتی اور سلامتی کا دین ہے، اس لئے قرآن کی تعلیمات اور رسول اللہ کی سنت میں وہ اصول پوری وضاحت سے پیش کئے گئے ہیں جو ان تمام مذہبی اکائیوں اور شناختوں کے درمیان عقائد کے اختلاف کے باوجود ایک سماجی و اقتصادی اور سیاسی وحدت کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس وحدت کو ممکن بنانے کے لئے قرآن کریم نے یہ اصول قائم کیا کہ تمام انسان اپنی تخلیق کی نوعیت کے لحاظ سے یکساں ہیں کہ سب کے سب اللہ کے بندے اور اولاد آدم ہیں۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ وہ نہ صرف دیگر تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہے بلکہ کائنات کی تمام چیزیں اور زمین و آسمان کے تمام وسائل اور نعمتیں اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں اور اس کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ شرف و مجد کا یہ مرتبہ ہر انسان کو بہ حیثیت انسان حاصل ہے اور اس میں عقیدے اور رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے:’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے ۔‘‘ (الاسراء) ۔
 قرآن ایک اور جگہ فرماتا ہے :’’یقینا ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں بنایا ہے ۔‘‘(التین) ۔
 
 اس لحاظ سے مذہب یا کسی بھی مادی بنیاد پر کسی بھی انسان کی تذلیل نہیں کی جا سکتی۔
رسول اللہ  کی سیرت طیبہ میں ایسی متعدد مثالیں ہیں جہاں عقیدے اور رنگ و نسل کی کسی بھی تفریق کے بغیر انسان کے خلقی شرف و مجد کو تسلیم کیا گیا ہے۔ قیس بن سعد اور سہل بن حنیف کی راویت ہے کہ ایک مرتبہ کسی یہودی کا جنازہ جا رہا تھا تو آپ  اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ صحابہ کرام نے سوال کیا: ’’ اے اللہ کے رسول ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا ۔‘‘ 
آپ نے فرمایا:’’کیا وہ انسان نہیں ؟‘‘ (مسلم ) ۔
 
 اس واقعے میں رسول اکرم  کا عمل اور جواب دونوں سے واضح ہے کہ ہر انسان محض اپنے انسان ہونے کی وجہ سے قابل احترام ہے خواہ وہ کسی بھی عقیدے کا ہو۔قرآن کریم نے تمام نوع انسانی کو ایک وسیع تر کنبہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے ’’تمام بندے بھائی بھائی ہیں ۔‘‘(ابوداؤد)۔
اور قرآن میں ہے’’ انہم امۃ واحدۃ‘‘(المومنون) ۔
 
اخوت کا یہ تصور تمام انسانوں کے درمیان ایک ایسے اتحاد کی بنیاد ہے جسے عقیدے اور رنگ و نسل کی کوئی بھی تفریق ختم نہیں کر سکتی۔ انسانی اخوت کا یہ اسلامی تصور انقلاب فرانس کے مشہور اصولو ں(آزادی،مساوات اور اخوت)اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشورسے تقریباً 14 سو سال پہلے قائم کیا گیا تھا۔اس عام انسانی وحدت کو معاشرے میں عملاً نافذ اور ایک پالیسی کی حیثیت دینے کی غرض سے اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی تہذیبی تشکیل کے لئے کئی اور اصول بھی قائم کئے۔ ان میں ایک بنیادی اہمیت کا حامل اصول مذہبی آزادی اور غیر مشروط رواداری کا ہے۔ 
 
اسلام نے مذہب اور عقیدے کے معاملے میں مکمل آزادی دی ہے۔ کسی بھی شخص کو جبراً کوئی عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا او ریہ کہ کسی بھی مذہب یا عقیدے کو اختیار کرنا انسان کی اپنی فہم و فکر اور اپنے انتخاب پر موقوف ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں واضح اعلان کیا ہے:’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ ‘‘(البقرہ)۔
 
قرآن کریم نے اس آزادی کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود اپنے رسول  کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی کو بزور اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں۔ قرآن کریم نے عقیدے کے رد و قبول کی تمام بحث کو ہمیشہ کے لئے یہ کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ :’’  تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ۔‘‘(الکافرون) ۔
 
اس کے ساتھ رحم دلی اور انسانوں کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون کو بھی ایک عملی حکمت عملی کے طور پر جاری کیا گیا۔اسلام کے مطابق ہر انسان حسن سلوک، خیر خواہی، شفقت و رحمت اور نیک تعاون کا مستحق ہے۔ کسی انسان پر ظلم اور اس کا استحصال جائز نہیں ۔ اس بابت بڑی سخت تاکیدیں اور ترغیبی ہدایات اسلام نے دی ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا:’’رحم کرنے والوں پر خدا ئے رحمن رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔‘‘(ترمذی) ۔
 ایک جگہ فرمایاگیا:’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔‘‘(بخاری)  ۔
 
قرآن کریم نے ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’نیکی و بھلائی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ۔‘ ‘ (المائدہ) ۔
 
انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور جذبۂ خدمت کے اظہا ر کے لئے ایک روایت میں ہے: ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اس کنبے میں اللہ کو سب سے محبوب وہ انسان ہے جو اللہ کے کنبے کے ساتھ حسن سلوک رکھے ‘‘۔
ایک اور موقع پر جناب رسالت مآب نے فرمایا:’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو ۔‘‘(ترمذی)  ۔
آپ نے مزید فرمایا:’’بھوکے کو کھانا کھلائو، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کرائو ۔‘‘(بخاری) ۔
 انسانوں کی مدد اور تعاون اتنا بڑا کار خیر ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’جب تک انسان اپنے بھائی کی مدد میں مشغول رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالی اس کی مدد میں رہتا ہے ۔‘‘(مسلم)۔
خود رسول اللہ نے خدمت خلق او رحسن سلوک کا عملی نمونہ پیش فرمایا اور خوش گوار سماجی تعلقات کی استواری کی ایک ٹھوس بنیاد فراہم کردی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ  کی ذات کو نبوت ملنے سے پہلے ہی سماجی خدمت و حسن سلوک کی وجہ سے لوگوں نے صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔ 
 
اسلامی معاشرے میں انسانی وحدت کا یہ تصور اور عمل سیاسی سطح پر انسانی حقوق اور شہریوں کی آزادیوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسلامی تاریخ میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے احترام اور تحفظ کی ایک روشن اور حیران کن مثالیں جا بجا موجود ہیں جو آج کے انسانی حقوق کے قیام و تحفظ کا دم بھرنے والے جدید معاشروں میں بھی ممکن نظرنہیں آتا۔ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے لئے انسانی حقوق کی پاسداری کی جو صورتیں ظاہر ہوتی ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
 
ہر مذہب کے عبادت خانوں، عبادت کے طریقوں اور مذہبی پیشوائوں کی حفاظت کی گئی چنانچہ یہ حکم تھا’’یہودیوں اور عیسائیوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائیں۔ یہ لوگ ناقوس بجانے سے نہ روکے جائیں اور اپنی عید کے دن صلیب نکالنے سے نہ روکے جائیں‘‘ (کتاب الخراج)۔
 
دوسری جگہ ہے’’یہودیوں اور عیسائیوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائیں۔ یہ لوگ رات اور دن میں جب چاہیں ناقوس بجائیں البتہ نماز کے اوقات مستثنیٰ رہیںگے۔ یہ لوگ اپنی عید کے دن صلیب نکالیں‘‘(تاب الخراج) ۔
ایک جگہ اور ہے’’کسی پادری کو اس کے موقف سے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے، کسی کاہن کو اس کی کہانت سے نہ ہٹایا جائے اور نہ کسی پر کسی قسم کی سختی یا تنگی کی جائے‘‘(تاب الخراج)۔
 
اسی کے ساتھ رحم دلی اور ا نسانوں کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون کو بھی ایک عملی حکمت عملی کے طور پر جاری کیا گیا۔ہرایک کو عبادت کے علاوہ دوسرے مذہبی امور کی ادائیگی کی پوری آزادی دی گئی جیسا کہ ابوعبید کئی ملکوںکا تذکرہ کرنے کے بعد کہتے ہیں’’یہ تمام ممالک غلبہ سے فتح کیے گئے تھے اور ان کے باشندے اپنے اپنے مذہب اور شریعتوں پر باقی رکھے گئے تھے‘‘(طبری، فتوح البلدان،کتاب الخراج)

 

 

 
 

شیئر: