Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلگت بلتستان پانچواں صوبہ اور سی پیک

 
حکومت پاکستان کےلئے بہتر ہے کہ وہ گلگت بلتستان کوصوبہ بنائے بغیر وہ تمام حقوق دے جو باقی صوبوں کو دیئے گئے ہیں
 
ارشادمحمود
 
گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے تناظر میں ملک میں بحث ومباحثے کاازسر نوسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کالاباغ سے بھی بڑا ایشو بننے جارہاہے کیونکہ پہلی بار کشمیری لیڈرشپ بلاکسی تخصیص کے ایک صفحے پر جمع ہوچکی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ اس وقت تک نہیں بنایا جاسکتاجب تک کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا۔اب یہ معاملہ محض آزادکشمیر کے رہنماﺅں تک محدود نہیں رہابلکہ سیدعلی گیلانی، میرواعظ عمرفاروق اوریاسین ملک نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت پاکستان کو ایسا کرنے سے باز رہنے کی اپیل کی۔
سوال یہ ہے کہ آخر حکومت پاکستان کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر تلی ہوئی ہے؟گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بات کوئی نئی نہیں بلکہ 50 کی دہائی سے ہی یہ بحث چلتی رہی ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ اور دیگر مقتدر ادارے جو کشمیر کے معاملات کے ذمہ دار ہیں ان کی ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ گلگت بلتستان کے قانونی اور آئینی اسٹیٹس کو نہ چھڑا جائے البتہ کچھ ماہرین یہ رائے بھی دیتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم کی جاسکتی ہے کہ مسئلہ کے حتمی حل تک عبوری طور پر گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ قراردیاجاسکتاہے۔رائے شماری کے وقت گلگت بلتستان کے شہری اپنی آزادانہ مرضی سے اپنی رائے کا استعمال کرنے کےلئے آزاد ہونگے۔
جب سے سی پیک کے منصوبے شروع ہوئے پاکستان کے اندر جو لابی گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش مند تھی وہ زیادہ فعال ہوگئی۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں یہ بھی کہاجانے لگا کہ چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہاہے لہذا ہمارے نظام میں کوئی ایسا آئینی اور قانونی سقم نہیں ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں مستقبل میں یہ سرمایہ کاری ڈوبنے کا اندیشہ ہوچنانچہ گلگت بلتستان کو پاکستان صوبہ بنادیا جائے تاکہ چین اطمینان سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرتارہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کی زبردست حمایت پائی جاتی ہے۔ وہاں کی حکومت ، سیاسی اور سماجی لیڈر شپ مسلسل یہ مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ وہ اسے صوبے کا درجہ دیا جائے۔اسی پس منظر میں 2009 میں پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان میں ایک صوبائی طرز کا نظام نافذ کیا لیکن اسے باقاعدہ صوبہ قرارنہیں دیاگیا کیونکہ خدشہ تھا کہ اس طرح ہند پروپیگنڈہ کرکے کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کرے گا اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کےلئے مشکلات پیدا کرے گا۔
گلگت بلتستان کے عوام کی شکایات جائز بھی ہیں کہ گزشتہ 70سالوں میں انہیں قومی اداروں میں نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔ وسائل میں سے مساوی حصہ نہیں دیا گیا۔آزادکشمیر کی لیڈرشپ اسلام آباد سے جغرافیائی قربت اور مسئلہ کشمیر کی بدولت مظفرآبادکی حکومت کے اچھے خاصے اختیارات حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن گلگت بلتستان کے شہریوں نے سوائے محرومیوں کے کچھ نہیں دیکھا۔ اسلام آباد نے انہیں آزادکشمیر کے ساتھ کسی بھی قسم روابطہ استوار کرنے سے بھی روکے رکھا لیکن خود بھی انہیں حقوق نہیں دیئے۔ان کی محرومیوں کا ذمہ دار کشمیریوں کو قراردےدیاحالانکہ گلگت بلتستان پر گزشتہ70سال میں براہ راست حکومت اسلام آباد کی نوکر شاہی نے کی۔
ان دنوں شروع ہونے والی بحث بھی ایک بے وقت کی راگنی ہے۔حکومت ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کسی بھی کوشش کو کشمیری لیڈرشپ اور رائے عامہ قبول نہیں کرتی بلکہ اس کے نتیجے میں کشمیریوں کے فعال طبقات پاکستان کےخلاف ہوجائیں گے جو کہ7 دہاہیوں کی قربانیوں اور محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔
ہند کو بھی ایک موقع ملے گا کہ کشمیریوں کو باور کرائے کہ پاکستان نے اپنے معاشی اور اسٹراٹیجک مفادات کی خاطر ریاست جموں وکشمیر کے حصے بخرے کردیئے اور جن کشمیریوںکی آزادی اور حق خوداردیت کا وہ پرچار کرتاہے وہ محض دکھلاﺅاہے۔علاوہ ازیں عالمی طاقتیں جو ہندکی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں وہ بھی گلگت بلتستان کو ایک فلیش پوائنٹ بنانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔واشنگٹن، برلن ہی نہیں بلکہ کئی ایک یورپی ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گلگت بلتستان کے ایشو پر سیاست چمکانے کےلئے بے تاب ہیں اور انہیں عالمی ادارے مالی وسائل اور سیاسی حمایت بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ پاکستان کا مکو ٹھپہ جاسکے۔
یہ طالبعلم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر پاکستان کو ایسی کون سی ضرورت درپیش ہے کہ اس نے ایک نیا پنڈروہ باکس کھول لیا ہے۔ سی پیک سے بہت پہلے قرارقرم ہائی تعمیر ہوئی۔گزشتہ چند سال سے اس کی تعمیر نو جاری ہے۔سی پیک کے آنے سے اس میں مزید بہتری آئے گی لیکن اس خطے میں کوئی موٹروے نہیں بن سکتی۔سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر جو شاہراہ نکالی گئی اس کی کشادگی ایک حد تک ہی ممکن ہے۔ سی پیک کے وسائل کا ایک بڑا حصہ بجلی کے منصوبوں بالخصوص ڈیمز کی تعمیر اور ریلوے کی تعمیر میں صرف ہونا ہے۔
گلگت بلتستان کی حکومت اور اسمبلی کو بااختیار بنانے کے کئی راستے موجود ہیں۔مثال کے طور پر وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کے اختیارات میں کمی کرکے اختیارات گلگت میں قائم اسمبلی اور حکومت کو تفویض کئے جاسکتے ہیں۔گلگت بلتستان کونسل کے قانون سازی اور انتظامی اختیارات کم کیے جاسکتے ہیں۔اسی طرح گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو نیشنل فنانس کمیشن اوردوسرے اداروں میں بھی مبصر کا درجہ دیا جاسکتاہے۔وفاقی حکومت اپنے مالی وسائل میں سے ان کے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتی ہے۔
بدقسمتی کے ساتھ ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا جہاں گلگت بلتستان اور کشمیرکی لیڈرشپ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہو گئی۔اس طرح ان دونوں خطوں کے شہریوں کے درمیان نفرت اور عناد کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے اور سمجھانے کا کوئی فورم ہی دستیاب نہیں۔ گلگت بلتستان اورکشمیری لیڈر شپ یا معاشرے کے فعال طبقات کے درمیان قومی مسائل پر کوئی مکالمہ نہیں ہوتا۔گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے کشمیریوں اور گلگت بلتستان والوں کے مابین ایک سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں اور ایک دوسرے کی مشکلات کا بھی ادراک کرسکیں۔
اکثرکشمیریوں کو دکھ یہ ہے کہ اسلام آباد ان کی مشاورت کے بغیر ریاست جموں وکشمیر کے حصے بخرے کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس طرح ان کا مقدمہ ہندکے سامنے کمزور ہوجاتاہے اورآزادی پسندوں کےلئے سیاسی مواقع کم ہوجاتے ہیں۔کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں رائے عامہ ریاست کی وحدتکے حوالے سے بہت احساس ہے۔ریاست جموں وکشمیر کو ایک اکائی کے طور پر برقرار رکھنے پر تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے پایاجاتا ہے۔
اس پس منظر میں حکومت پاکستان کےلئے بہتر ہے کہ وہ گلگت بلتستان کوصوبہ بنائے بغیر وہ تمام حقوق دے جو باقی صوبوں کو دیئے گئے ہیں۔ 
 ٭٭٭٭٭٭

شیئر: