Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانون سازی پر اتفاق رائے کے لیے حکومت کا اپوزیشن سے باضابطہ رابطہ

حکومت نے بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 11 نومبر کو طلب کررکھا تھا (فائل فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ)
وفاقی حکومت نے انتخابی اصلاحات دیگر قوانین پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپوزیشن سے باضابطہ رابطہ کرلیا ہے۔
اس سلسلے میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کو وسیع تر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کی تمام اہم اصلاحات پر پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر جامع فیصلہ سازی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق سپیکر نے اپنے خط میں قائد حزب اختلاف سے کہا ہے کہ وسیع تر عوامی مفاد میں الیکشنز (ترمیمی) بل 2021 سمیت مختلف بلز پر دوبارہ مشاورتی عمل شروع کرنے اور قانون سازی کے لیے تشکیل دی گئی متفقہ کمیٹی کے فورم کو بروئے کار لایا جائے۔ اپوزیشن لیڈر کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سپیکر کے مطابق مختلف بلز بشمول الیکشنز (ترمیمی) بل 2021 قومی اسمبلی سے پاس ہوچکے ہیں لیکن مقررہ وقت میں سینیٹ سے منظور نہ ہوسکے۔
مذکورہ بل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے مشترکہ اجلاس میں زیر غور آنے ہیں۔ ان بلوں پر غور کرنے اور ترامیم تجویز کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے قانون سازی سے متعلق متفقہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
’کمیٹی کی طرف سے مشاورتی عمل مکمل نہیں ہوسکا۔ امید ہے کہ اپوزیشن لیڈر اس عمل کو بامقصد بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘
سپیکر آفس مذکورہ بلوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں حکومت اور اپوزیشن کو سہولت فراہم کرے گا۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات سمیت 30 بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 11 نومبر کو طلب کیا گیا تھا تاہم ایک روز قبل اجلاس موخر کردیا گیا۔

مشترکہ اجلاس موخر کرنے پر حکومت نے موقف اختیار کیا کہ وہ ان بلوں پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن سے رابطہ کرے گی (فائل فوٹو: اے پی پی)

حکومت کی جانب سے اجلاس موخر کرنے پر موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ ان بلوں پر اتفاق رائے کے لیے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن سے رابطہ کرے گی تاکہ اصلاحات متفقہ ہوں تاہم دوسری جانب حکومت کے اتحادیوں کے تحفظات بھی سامنے آگئے تھے جنھیں اجلاس کے التوا کی اصل وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ منگل کو قومی اسمبلی اجلاس میں حکومت کو دو بل پیش کرنے کے معاملے پر رائے شماری میں ایوان میں اکثریت ہونے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس وجہ سے اپوزیشن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت کو شکست دینے کے لیے صف بندی کرچکی ہے۔
مشترکہ اجلاس موخر کرنے اور حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے ای وی ایم سمیت دیگر بلوں کی حمایت نہ کرنے کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت کی اتحادی جماعتوں کا سیاہ قانون سازی کا حصہ بننے سے انکار جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔‘

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ اجلاس میں حکومت کو شکست دینے کے لیے صف بندی کرچکی ہے (فائل فوٹو: اے اپی پی)

’اتحادیوں کے انکار اور تحفظات کے بعد حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس، ای وی ایم اور انتخابی اصلاحات سے متعلق سیاہ قوانین واپس لے۔‘
انہوں ںے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھاگ جانا حکومت کے اکثریت کھو دینے کا ثبوت ہے۔ عوام اور پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کے بعد کرسی سے زبردستی چمٹے رہنے کے بجائے عمران نیازی مستعفی ہوکر قوم کو ریلیف دیں۔‘

شیئر: