Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آڈیو لیکس، پاکستان میں سیاست دان میڈیا کو کیوں مینیج کرتے ہیں؟ 

حالیہ سیاست آڈیو ویڈیو لیکس کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلم لیگ ن  نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر آڈیو لیکس کی زد میں ہے، اور سوشل میڈیا پر حکمراں جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے کارکن تقریباً گتھم گتھا ہیں۔  
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل اے آروائے نے ایک آڈیو ٹیپ نشر کی ہے جس میں چینل کے مطابق مریم نواز اور پرویز رشید مبینہ طور کچھ صحافیوں سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کی جماعت پر تنقید کرتے ہیں۔  
اسی طرح اس مبینہ آڈیو میں کچھ صحافیوں کو تحائف بھجوانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔
اس بحث نے زور پکڑ لیا ہے کہ ایک تو سیاست دان میڈیا کو مینیج کرتے ہیں اور انہیں تحائف بھیج کر اپنے حق میں بات کرنے کے لیے اُکساتے بھی ہیں۔  
اردو نیوز نے اس موضوع پر پاکستان کے دو جید صحافیوں سے اس موضوع پر بات کی ہے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت ایک تاریک دور میں داخل ہو چکی ہے۔ ’یہ صحافت کے بدترین دن ہیں اور پچھلے چار پانچ برسوں میں یہ زوال شروع ہوا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اس صورت حال تک پہنچانے والی قوتوں نے تو جو کام کیا سو کیا، میڈیا خود بھی اس کا پچاس فیصد ذمہ دار ہے۔ میڈیا ہاؤسز ہوں یا صحافی ایسی ایسی مثالیں ہیں جنہوں اپنی سکرینوں کو سیاسی جماعتوں کا ماؤتھ پیس بنادیا ہے۔‘  
البتہ چینل 24 کے ڈائریکٹر نیوز احمد ولید سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے بہتر تعلقات بنانے کی روایت پوری دنیا میں نظر آتی ہے۔
’سیاسی جماعت ہو یا کوئی ادارہ یا سفارت خانے یہ تو پہلی بات ہے کہ اس ملک کے میڈیا کے اداروں اور صحافیوں سے بہتر تعلقات بنانے کے لیے ان کو بنیادی تربیت دی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’تحائف بھجوائے جاتے ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا صحافی ان چیزوں سے مرعوب ہو کر ان کا بیانیہ اٹھاتے ہیں یا نہیں؟

سینیئر تجزیہ کار فہد حسین کے مطابق ’بعض میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں نے اپنی سکرینوں کو سیاسی جماعتوں کا ماؤتھ پیس بنادیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

’بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت زیادہ ہے، لیکن ایسے صحافی بھی ہیں جن کی سیاست دانوں سے دوستیاں تو بہت اچھی ہیں لیکن وہ اپنی خبر پر سمجھوتہ کبھی بھی نہیں کرتے۔‘  
فہد حسین نے اس بحث میں لیک ہونے والی آڈیوز اور ویڈیوز پر ایک اور زاویے سے بھی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اصل بات یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک انحطاط کا شکار معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اس وقت لوگ یہ بات تو ضرور کر رہے ہیں کہ اس آڈیو میں باتیں کیا ہو رہی ہیں، لیکن کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ کسی کی آڈیو یا ویڈیو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کرنا بھی ایک جرم ہے۔‘  
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ اس نجی گفتگو کو ایک تو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر اس کو سیاسی مقاصد کے لیے لیک کی جاتا ہے۔‘
’اس ملک میں پرائیویسی نام کی چڑیا ہی ناپید ہو گئی ہے۔ خوف ناک بات یہ ہے کہ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہے اور یہ بحث عوامی بیانیے میں موجود ہی نہیں ہے۔‘  

اس بحث نے زور پکڑ لیا ہے کہ سیاست دان میڈیا کو مینیج کر کے اپنے حق میں بات کرنے کے لیے اُکساتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فہد حسین نے کہا کہ ’ہم ایک عجیب دور میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی اخلاقیات کا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ چاہے وہ سیاست ہو یا ثقافت کے دوسرے پہلو۔‘  
خیال رہے کہ پاکستان کی سیاست میں آڈیو وڈیوز لیکس کی تاریخ تو خاصی پرانی ہے لیکن حالیہ سیاست میں اس کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلم لیگ ن  نے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر وہ اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ انہوں نے فیصلہ دباؤ میں کیا تھا۔  
اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا کہ کبھی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی کوئی ذاتی آڈیو ویڈیو لیک ہو جاتی ہے تو کبھی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں کی آڈیو گفتگو منظر نامہ بدل دیتی ہے۔
 دونوں طرف وقفے وقفے سے یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی بہت سی آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں جو وقت پر سامنے آئیں گی۔  

شیئر: