Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاحیات نااہلی، ارکان پارلیمان کی اہلیت کا معیار 62 ون ایف کیا ہے؟

پاکستان میں کسی بھی رکن پارلیمان یا صوبائی اسمبلی کی اہلیت کو مختلف فورمز پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
جھوٹ بولنے یا غلط بیانی پر پاکستان میں ارکان پارلیمان اور صوبائی اسمبلی کی نااہلی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوتی ہے۔
آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا اور اب الیکشن کمیشن نے سینیٹر فیصل واوڈا کے کیس میں 62 ون ایف کے تحت فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ اپریل 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی تاحیات ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 میں مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت درج ہے۔
اس آرٹیکل کی پہلی شق یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک پارلیمان کا رکن بننے کا اہل نہیں جب تک وہ مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔
اس معیار کا تعین سات ذیلی شقوں میں کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 62 کی پہلی شق کی ذیلی دفعہ ایف (62 ون ایف) میں لکھا ہے کہ رکن پارلیمان بننے کے لیے ایک شرط امیدوار کا نیک سیرت، صادق اور امین ہونا بھی ہے اور اس کے برعکس ہونے کا اُس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہ ہو۔

رکن پارلیمان یا ارکان اسمبلی کی اہلیت چیلنج کرنے کا فورم کیا ہے؟

کسی بھی رکن پارلیمان یا صوبائی اسمبلی کی اہلیت کو مختلف فورمز پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
ایک سپیکر قومی اسمبلی کا فورم ہے جہاں کسی رکن کے خلاف پارٹی کی جانب سے درخواست دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے پاس کسی سینیٹر کے خلاف درخواست دی جا سکتی ہے۔ اگر ان درخواستوں پر کارروائی نہیں ہوتی تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
سینیئر وکیل حامد خان کے مطابق پارٹی کی جانب سے اپنے کسی رکن پارلیمان کی نااہلی بعض مخصوص حالات میں سپیکر سے مانگی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فنانس بل پر ووٹنگ میں پارٹی ڈسلپن کی خلاف ورزی بھی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی/ سکرین گریب

انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی عام طور پر سامنے آتی ہے جبکہ آرٹیکل 63 اور 63 اے کے تحت بھی ارکان پارلیمان کی نااہلی ہوتی ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کے باعث ہوئی تھی اور سپیکر نے سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد بھی ان کے ڈِس کوالیفائی ہونے کا نوٹیفیشکن جاری نہیں کیا جس پر عدالت نے حکم دیا۔
کسی رکن پارلیمان کی اہلیت چیلنج کرنے کے لیے عام شہری ہائیکورٹ سے رِٹ آف کووارنٹو میں رجوع کر سکتا ہے جبکہ سپریم کورٹ میں ارکان پارلیمان کی نااہلی کی درخواستیں آئین کے مفاد عامہ کے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت سنی گئیں۔
ارکان پارلیمان اور صوبائی اسمبلی کے خلاف درخواست دائر کر کے اہلیت چیلنج کرنے کا ایک مرحلے اُس وقت بھی ہوتا ہے جب وہ الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہیں۔ کوئی بھی مدمقابل امیدوار یا اس حلقے کا ووٹر کسی امیدوار کی اہلیت کو ریٹرننگ افسر کے سامنے چیلنج کر سکتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دہائی کے اوائل میں سب سے پہلے سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ارکان پارلیمان کی اہلیت اور معیار پر پورا نہ اترنے یا اترنے کے حوالے سے مقدمات کی سماعت شروع کی۔
سپریم کورٹ میں اُس وقت کئی ایسے درخواست گزار آئے جنہوں نے سنہ 2002 اور سنہ 2008 میں الیکشن لڑنے والے متعدد سیاست دانوں اور ارکان پارلیمان کی اہلیت کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ وہ گریجویشن (بی اے) کی جعلی ڈگری جمع کرانے کے مرتکب ہوئے اس لیے نااہل قرار دیا جائے۔ 
ارکان پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے درجنوں ارکان کے بی اے کی ڈگری کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور کئی فیصلوں میں ایسے ارکان کو نااہل بھی قرار دیا گیا۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان ارکان میں ق لیگ کی سابق سینیٹر یاسمین شاہ بھی شامل تھیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری میں نااہلی کا فیصلہ سنایا۔
جولائی 2018 میں اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کو نااہل قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ انہوں نے الیکشن لڑنے کے لیے بی اے کی جعلی ڈگری جمع کرائے۔
گزشتہ برس اسی مقدمے میں فوجداری کارروائی کے تحت ضلع بدین کی عدالت نے جعل سازی کا الزام ثابت ہونے پر یاسمین شاہ کو دو سال کے لیے جیل بھی بھجوایا۔ بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے اپیل میں فیصلے پر عمل درآمد معطل کرتے ہوئے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ سنایا۔

شیئر: