Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں رینٹ اے کار کےلیے کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟

مملکت میں عموماً ایک سے دوسرے شہر جانے کے لیے کرائے کی گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں رہنے والےعموماً ایک سے دوسرے شہر جانے کے لیے کرائے پر گاڑی حاصل کرتے ہیں۔
اس کے متعدد فائدے ہیں، جن میں اہم ترین یہ ہے کہ گاڑی نئے ماڈل کی ہوتی ہے اوراس کے راستے میں خراب ہونے کا اندیشہ بہت کم ہوتا ہے جبکہ لمبے روٹ پر سفر کے دوران سہولت بھی رہتی ہے۔ 
سعودی عرب میں کرائے پر گاڑی فراہم کرنے کی دسیوں کمپنیاں ہیں، جن میں ملٹی نیشنل کے علاوہ نیشنل بھی ہیں۔
عام طور پر بڑی کمپنیوں کی گاڑیوں کا یومیہ کرایہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، مگر ان کے فوائد بھی زیادہ ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ممبر بننے کی صورت میں کرائے میں رعایت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی خراب ہونے کی صورت میں کمپنی اس کی نقل و حمل کے علاوہ فوری طور پر دوسری گاڑی فراہم کرنے کی ذمہ دارہوتی ہے۔ 
گذشتہ برس سے رینٹ اے کار سروس کے قانون میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں فریقین یعنی صارف اور کمپنی دونوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ 
ماضی میں اکثر صارفین کو یہ شکایت رہتی تھی کہ یومیہ بنیاد پر حاصل کی جانے والی کار کو جب وہ واپس کرتے ہیں تو اس میں موجود پیٹرول کی مقدار زیادہ ہوتی تھی جس کا کوئی حساب نہیں لیتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں سعودی عرب میں پیٹرول کافی سستا ہوا کرتا تھا مگر اب پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد اکثر لوگوں کو یہ شکایت رہتی تھی کہ ان کا ڈالا ہوا پیٹرول گاڑی میں باقی ہے جبکہ کمپنی کی جانب سے اس کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا تھا۔ 

رینٹ اے کار سروس کی جانب سے انشورنس پالیسی اختیاری ہوتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

اس شکایت کا خاتمہ بڑے اور معروف رینٹ اے کار سروس والے اداروں نے اس طرح کیا کہ گاڑی کرائے پر دیتے وقت ٹینک فل ہوتا ہے اور واپس لیتے وقت ٹینک فل کرکے دینا پڑتا ہے۔ اس اصول سے صارفین کی شکایت بھی ختم ہو گئی اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہوا۔ 
انشورنس پالیسی  
رینٹ اے کار سروس کی جانب سے انشورنس پالیسی اختیاری ہوتی ہے، تاہم بہتر ہوتا ہے کہ کرائے پر گاڑی حاصل کرنے والا معمولی رقم کے عوض پالیسی حاصل کرے کیونکہ یہاں سڑکوں پرٹریفک اژدہام کی وجہ سے حادثات روز مرہ کا معمول ہیں جس کی وجہ سے انشورنس پالیسی نہ ہونے پر دشواری ہی نہیں بلکہ خطیر رقم بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ 
مختلف گاڑیوں کی انشورنس پالیسی مخلتف ہوتی ہے، جو گاڑی کے میک اور ماڈل کے حساب سے ہوتی ہے۔ عام طور پر معروف کمپنیوں کی جانب سے فل انشورنس کی مد میں 50 ریال لیے جاتے ہیں جو ایک دن کے ہوتے ہیں جبکہ تھرڈ پارٹی انشورنس بھی کرائی جا سکتی ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ معمولی فرق کی وجہ سے فل انشورنس پالیسی ہی حاصل کی جائے۔ 
طریقہ کار 
عام طورپر معروف رینٹ اے کار کمپنیوں نے اپنی ایپلیکیشنز لانچ کی ہیں، جن کے ذریعے بکنگ کرنے پر وہ پانچ فیصد رعایت دیتی ہیں جس سے زیادہ دن کے لیے بکنگ کرانے کی صورت میں کافی بچت کا امکان ہوتا ہے۔  

کار بک کراتے وقت یہ لازمی ہے کہ گاڑی کا اچھی طرح معائنہ کر لیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

ایپ پر بکنگ کےعلاوہ اگر کمپنی کے دفتر سے کار بک کی جائے تو اس صورت میں رعایت نہیں ملتی، البتہ اگر آپ کمپنی کے مستقل رکن ہیں یا کمپنی کے ’گولڈ ‘ یا ’سلور‘ کارڈ ہولڈر ہیں اس صورت میں ڈسکاونٹ دیا جاتا ہے۔ 
کار بک کراتے وقت یہ لازمی ہے کہ گاڑی کا اچھی طرح معائنہ کر لیا جائے اور کوئی بھی ظاہری نقص ہونے کی صورت میں اسے درج کرایا جائے تاکہ واپس کرتے وقت وہ آپ کے کھاتے میں نہ پڑے۔ 
گاڑی کرائے پرحاصل کرتے وقت معمولی رقم کے عوض ’اوپن کلومیٹر‘ پالیسی حاصل کی جائے تاکہ اضافی کلومیٹر ہونے کی صورت میں مزید رقم ادا نہ کرنا پڑے۔

معروف رینٹ اے کار کمپنیوں نے اپنی ایپلیکیشنز لانچ کر رکھی ہیں (فوٹو: ٹیک ایکس)

عام طور پر طویل سفر کے لیے یہ بہتر طریقہ ہوتا ہے جس کا زیادہ ترفائدہ صارف کا ہوتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اوپن کلومیٹرپالیسی حاصل کی جائے جس کے لیے محض 40  ریال زیادہ ہوتے ہیں۔ 
گاڑی کی بکنگ ہوتے ہی ٹریفک پولیس کے ادارے میں وہ وقتی طورپر صارف کے نام منتقل ہو جاتی ہے۔ اس امر کا خیال رکھیں کہ واپس کرنے کا وقت نوٹ کرلیں اور اس امر کی بھی یقین دہانی کر لیں کہ گاڑی لوٹاتے وقت ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری کی جانے والی ’ٹرانسفرلیز‘ کینسل کردی گئی ہے۔ بصورت دیگر اگر کوئی اور اس گاڑی کو استعمال کرتا ہے اور ٹریفک خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو چالان فوری طورپر جس کے نام گاڑی کی لیز ہوتی ہے اس کے شناختی کارڈ یا اقامہ نمبر پر آجائے گا۔ اس لیے اس امر کا خاص خیال رکھیں کہ گاڑی واپس کرتے وقت لیز اپنے سامنے کینسل کرائیں اور اپنے موبائل پر ٹریفک پولیس کی جانب سے لیز منسوخ ہونے کے بعد ہی گاڑی کمپنی کو لوٹائیں۔

شیئر: