Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقبال کا مزاحیہ کلام، ظریفانہ کم، حکیمانہ زیادہ ہے

عالمی اردو مرکز کی ذیلی تنظیم’’مجلس اقبال‘‘ کے اجلاس میں مزاحیہ شاعر ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کا کلیدی خطبہ

- - - -  - - - -

محمد نواز جنجوعہ۔ جدہ
- - - - - - -  -
عالمی اردو مرکز کی ذیلی تنظیم’’مجلس اقبال‘‘ کا اجلاس مقامی یستوران میں منعقد ہوا۔مجلس اقبال کے چیئرمین عامر خورشید نے نظامت کے فرائض ادا کئے۔ابتداء پاکستان کے ایوارڈ یافتہ معروف قاری محمد آصف کی تلاوت قرآن حکیم سے ہوئی۔محمد نواز جنجوعہ نے نعت طیبہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ملی نغمہ پاکستان انٹرنیشنل اسکول کے طالب علم احمد زبیر نے خوبصورت انداز میں پڑھا۔چیئرمین مجلس اقبال عامر خورشید نے افتتاحی کلمات میں یوم پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اسے تاریخ ساز دن قراردیا اور اس کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کی۔جدہ کے مشہور شاعر محسن علوی نے یوم پاکستان کی نسبت سے اپنا منظوم کلام پیش کیا۔شیر افضل نے مترنم اندازمیں کلام اقبال پڑھا۔
معروف ادبی شخصیت فضاء الرحمن نے علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم "تنہائی" کی شرح نہایت مؤثر انداز میں حاضرین کے گوش گزار کی جسے بہت پسند کیا گیا۔ مزاحیہ شاعر ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی نے " اقبال کی مزاحیہ شاعری "کے زیر عنوان کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ: ’’ علامہ اقبال کوئی باقاعدہ مزاح گو شاعر نہیں تھے۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں بہت کم لکھا اور جو لکھا وہ انکے اولین مجموعۂ کلام "بانگ درا" میں "ظریفانہ" کے نام سے ایک خاص حصے میں موجود ہے۔اس ظریفانہ حصے کے علاوہ کلام اقبال کا کوئی ایک آدھ شعر ہی ایسا ہو گا جو طنز و مزاح کے معیار پر پورا اترے۔ اگر کوئی اس نیت سے اقبال کا مزاحیہ کلام پڑھے کہ وہ ان کے اشعار پڑھ کرہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائے گا تو ایسا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ ان کا کلام ظریفانہ کم اور حکیمانہ زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنی مزاحیہ شاعری سے تفریح طبع کا نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کا کام لیا ہے۔ کسی پر کیچڑ اچھالنا ان کا مقصد ہرگز نہیں تھا۔وہ اپنی قوم کی طرح غلامی کی جس شب ِتار اور عہد پر فتن سے گزر رہے تھے ،اس میں انکی غزل اور ھزل دونوں کا مدعا حرماں نصیب قوم کو آزادی دلانا اور فرنگی سامراج کی چالوں سے بچانا تھا تاہم انہوں نے آزادی کی جنگ اس قرینے سے لڑی کہ مد مخالف کو بھی آخرکار انہیں 1922 ء میں ’’نائٹ ھڈ‘‘ اور’’ سر‘‘ کا خطاب دینا ہی پڑا۔ وہ اس ابتذال اور عامیانہ پن کا شکار نہیں ہوئے جس کی وجہ سے اردو کے اولین مزاح گو شاعر جعفر زٹلی کی گردن زدنی کا حکم دیا گیا تھا۔ اقبال کے کئی مزاحیہ قطعات میں مشرق اور مغرب کی باہمی جنگ اور ستیزہ کاری نظر آتی ہے۔اقبال نے اپنی مزاحیہ شاعری سے وہی کام لیا ہے جو سنجیدہ شاعری سے لیا یعنی غلامی کے ستائے سوختہ سامانوں کو اصلی منزل سے روشناس کرانا۔
شمشیر و سناں کی جو جھنکار انکی سنجیدہ اور آزادی کے جذبے سے سرشار نظموں میں نظر آتی ہے اس کی جھلک ان کی مزاحیہ شاعری میں بھی نمایاں ہے۔آزادی سلب ہونے کے بعد برصغیر میں انگریزوں کی نت نئی کارروائیوں کی بدولت مسلمان اور ہندو قوموں میں ہر محاذ پر تفرقے کی ایک فضا قائم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس پر اقبال نے فرمایا:
یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستور محبت قائم تھا
یا بحث میں اردوہندی ہے، یا قربانی یا جھٹکا ہے
نئی تہذیب کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر اقبال معاشرے کی زبوں حالی سے کس قدر کبیدہ خاطر ہوئے اس کا اندازہ ان اشعار سے ہوتا ہے :
 زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا
 سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
علامہ نے اپنی مزاحیہ شاعری میں اس وقت کے نظام تعلیم اور مدرسے کی جگہ اسکولوں، کالجوں کے قیام اور ان میں انگریزی میڈیم اسٹائل کی تعلیم کو بھی نشانہ بنایا ہے :
 تعلیم مغربی ہے بہت جرأت آفریں
پہلا سبق ہے بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ
انگریزوں کے تسلط کے بعد مدرسے و مسجد کی تعلیم تو پس منظر میں چلی گئی اور جگہ جگہ پرائیویٹ اسکول اور ٹیوشن سنٹر کھلنے لگے جس پر انہوں نے یوں چوٹ لگائی:
 تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
 دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے
انگریزوں کے رائج کردہ کونسل سسٹم میں مقامی نمائندگی کی اصل حقیقت کو طشت از بام کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا:
ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں
آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا
ہم تو فقیر تھے ہی ہمارا کمال تھا
سیکھیں سلیقہ ابامراء بھی "سوال" کا
لوکل باڈیز کے اجلاس پر طنز کرتے ہوئے اقبال نے کہا:
مصر ہیں حلقہ کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں فرنگی
سرکار نے یونین کونسلوں اور اسمبلیوں میں ریاستی حکمرانوں ، زمینداروں اور جاگیرداروں کیلئے سیٹیں مختص کیں تو اقبال نے یوں طنز کیا:
 سنا ہے میں نے کل یہ گفتگو تھی کارخانے میں
 پرانے جھونپڑوں میں ہے ٹھکانہ دستکاروں کا
مگر سرکار نے کیا خوب کونسل ہال بنوایا
کوئی اس شہر میں تکیہ نہ تھا سرمایہ داروں کا
بالآخر اقبال بھی ضبط و تحمل کا دامن چھوڑ کر واشگاف اعلان کرتے ہیں :
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
 نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ، ممبری ، کونسل ، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
معاشرے کی معاشی ناہمواریوں اور ظلم و تعدی سے بھی اقبال بے بہرہ نہیں رہ سکتے تھے۔ انکے کلام کے ظریفانہ حصے میں ایسے کئی اشعار ہیں جن میں زیردستوں پہ سینہ زوری کرنے والے سرمایہ داروں کی گوشمالی کی گئی ہے:
رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے
 ماجرا اپنی ناتمامی کا
مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو
صلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا
اقبال نے آزادی کی تگ و تاز میں مزاحیہ سخن وری کو بطور اصلاح استعمال کیا اور مآل کار وہ نہ سہی مگر انکے اہل وطن آزادی کی نعمت سے سرفراز اور ظفریاب ہوئے۔ آخر میں صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے عالمی اردو مرکز کے صدر اطہر نفیس عباسی نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اپنے چند خوبصورت اشعار بھی پیش کئے:
 جادہ حق پہ ثابت قدم دوستو
چل کے منزل پہ لینا ہے دم دوستو
آسمان وطن پہ ہو پھر جلوہ گر
 آفتاب حریم حرم دوستو
جادہ حق پہ ثابت قدم دوستو

شیئر: