Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صدف کو بچے روکتے رہے کہ ماما آج کام پر نہ جائیں‘

صدف نعیم کی عمر 40 سال تھی اور وہ گذشتہ 14 برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک تھیں (فائل فوٹو: صدف نعیم فیس بک)
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں کنٹینر کے نیچے آکر ہلاک ہونے والی صحافی صدف نعیم کے شوہر نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ ‘آج جب وہ لانگ مارچ کور کرنے کے لیے گھر سے نکل رہی تھیں تو بچوں نے انہیں روکا۔‘
’بچوں کا کہنا تھا کہ ماما کام پر نہ جائیں آپ سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا مجبوری ہے، کوشش کروں گی کہ جلدی آجاؤں، اور انہیں پیار کر کے نکل گئیں۔‘
صدف نعیم کی عمر 40 سال تھی اور وہ گذشتہ 14 برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک تھیں۔ انہوں نے صحافت کا آغاز شوبز کی خبروں سے کیا اور شروع سے ہی خبریں گروپ سے وابستہ رہیں۔
صدف کے شوہر نعیم بھٹی خود بھی کیمرہ مین ہیں اور شادی بیاہ کی فلم بندی کرتے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہماری شادی 2000 میں ہوئی ہمارے دو بچے ہیں بڑی بیٹی 20 سال جبکہ چھوٹا بیٹا 14 سال کا ہے۔‘
’وہ اپنے کام سے بہت محبت کرتی تھیں۔ انہیں کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بہت محنت کر رہے تھے۔ یقین نہیں تھا وہ اتنی جلدی چلی جائیں گی۔‘
صدف نجی ٹی وی چینل فائیو میں پرانے گانوں پر مشتمل ایک پروگرام ’پرانے گیت  پرانی غزلیں‘ کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیتی تھیں۔
لاہور سے جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو وہ ان صحافیوں میں سے تھیں جنہیں تحریک انصاف کی انتظامیہ نے عمران خان کا انٹرویو کرنے کی اجازت دی تھی۔
چینل فائیو میں کام کرنے والے سینیئر پروڈیوسر شکیل احمد بتاتے ہیں کہ ’جب وہ عمران خان کا انٹرویو کر کے آئیں تو انہیں چیف ایگزیکٹیو امتنان شاہد نے شاباش دی۔‘
’انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ لانگ مارچ کور کرنے جانا چاہتی ہیں تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ انہیں شوبز کے بعد سیاسی رپورٹنگ میں تحریک انصاف کی بیٹ کور کرنا پسند تھا۔‘

صدف نعیم کے شوہر نے بتایا کہ ’ہماری شادی 2000 میں ہوئی ہمارے دو بچے ہیں‘ (فائل فوٹو: صدف نعیم فیس بک)

میں ذاتی طور پر صدف کو دو ہزار آٹھ سے جانتا ہوں اور انہیں تقریباً ہر بیٹ میں کام کرتے دیکھا۔ شوبز، سپورٹس، سیاست، تعلیم اور ہر قسم کے احتجاج کی کوریج کے دوران وہ اپنے مخصوص انداز میں موجود ہوتی تھیں۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان انگلینڈ کرکٹ سیریز کے لاہور میں کھیلے گئے میچز بھی کور کیے۔
سپورٹس صحافی سہیل عمران بتاتے ہیں کہ ’میں نے صدف سے زیادہ محنتی رپورٹر نہیں دیکھی۔ وہ اتنی سادہ طبیعت کی مالک تھیں جیسے کوئی درویش ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ اچھا لباس زیب تن کرتی تھیں اور انہیں ہر چیز سیکھنے کا شوق تھا۔ وقت سے پہلے پہنچنا اور دیر تک رُکنے سے وہ گھبراتی نہیں تھیں۔‘
پنجاب اسمبلی میں ان کے ساتھ طویل عرصہ رپورٹنگ کرنے والے صحافی اکرام راجا کہتے ہیں کہ ’صدف نعیم کی موت پر دل افسردہ ہوگیا ہے۔‘
’ابھی ارشد شریف کا دُکھ کم ہوا نہیں کہ صدف بھی دُکھ دے گئیں۔ صدف سے میرا تعلق پنجاب اسمبلی کی راہداریوں سے بنا اور پھر احترام کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’صدف ایک محنتی رپورٹر تھیں، شوبز اور سیاست پر خبریں گروپ کے لیے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ اپنے مخصوص سٹائل، لباس اور گفتگو کے باعث رپورٹرز میں ہمیشہ مسکراہٹ بکھیرتی رہیں۔‘

صدف کی ساتھی خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ ’میرے تو آنسو نہیں رُک رہے۔ ایک منٹ میں وہ خود خبر بن گئیں‘ (فائل فوٹو: صدف نعیم فیس بک)

’مجھ سے صدف کا خاص لگاؤ تھا۔ جیسے کوئی چھوٹا بھائی ہو۔ پنجاب اسمبلی کی راہداریوں میں ہونے والی ملاقاتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ پہلی ملاقات حسن مرتضی کے چیمبر میں ہوئی تھی۔‘
اکرام راجا نے کہا کہ ’انہیں اجلاس کی خبر چاہیے تھی، کسی دوست نے کہا کہ فی سبیل اللہ دو ہی بندے خبریں بانٹتے ہیں۔ ایک اخلاق باجوہ اور دوسرا اکرام راجا۔‘ ’بس پھر ان کی مجھ سے ملاقات ہوگئی۔‘
’لاہور میں ان کے آخری دنوں کی رپورٹنگ میں میری ان سے ملاقاتیں کم ہوئیں۔ سچ پوچھیں تو آج ایک ملنگ، فقیر صحافی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔‘
خاتون صحافی مشال شاہین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے تو آنسو نہیں رُک رہے۔ ایک منٹ میں وہ خود خبر بن گئیں۔‘
’بے چاری روٹی کے لیے پتا نہیں کتنے دھکے کھا رہی تھی اور آج ان ہی دھکوں نے اس کی جان لے لی۔‘
صدف نعیم کی میت سادھوکی سے لاہور روانہ کر دی گئی ہے جہاں ان کی نماز جنازہ اور پھر تدفین ہوگی۔

شیئر: