Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورکمانڈر ہاؤس حملہ: پولیس ابھی تک مرکزی ملزمان کو کیوں گرفتار نہیں کر سکی؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں۔
لوگوں کو جیو فنسنگ کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم جب اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کی گئی تو ایف آئی آر میں ہی کچھ ملزمان کا مرکزی کردار رکھا گیا۔ جیسا کہ ان ہنگاموں میں ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی تھی جس کے قتل کا الزام ایف آئی آر میں تحریک انصاف کے رہنما میاں اسلم پر عائد کیا گیا۔
جن افراد پر مرکزی ملزمان کا شائبہ ظاہر کرتے ہوئے ان کے نام ایف آئی آر میں درج کیے گئے ہیں وہ ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے۔
جو ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ان میں میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، تحریک انصاف لاہور کے صدر امتیاز شیخ اور عمران خان کے بھانجے حسان نیازی شامل ہیں۔ یہ وہ نامزد افراد ہیں جو ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکے۔ اس کے لیے سینکڑوں افراد بھی ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چار افراد میں سے حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال تو باقاعدگی سے ٹویٹ بھی کر رہے ہیں۔ البتہ امتیاز شیخ اور حسان نیازی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔
نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کل 3600 ایسے افراد کی تلاش تھی جو اس جلاؤ گھیراؤ میں ملوث تھے جب کہ پولیس نے اب تک 1200 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک تمام افراد کو گرفتار کیوں نہیں کر سکے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک پولیس افسر جو کہ ان تحقیقات کا حصہ ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تفتیشی ٹیمیں دن رات کام کر رہی ہیں۔ ڈیٹا اتنا زیادہ اور کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ ان سے منسوب شواہد بھی ساتھ ہی تیار کیے جائیں۔ جو لوگ مفرور ہیں وہ زیادہ دیر بھاگ نہیں سکتے ہیں۔ جیسے ہی شناخت کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد ساری توجہ گرفتاریوں پر ہی ہو گی۔‘
دوسری طرف سی سی پی او لاہور کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’چاروں مرکزی کرداروں سمیت مزید دیگر ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک سونپ دیا ہے جس میں آپریشنز، انویسٹی گیشن ونگز اور سی آئی اے کی ٹیمیں شامل ہیں۔ پولیس کے متعدد چھاپوں سے قبل ملزمان فرار ہوتے رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے متعدد بار ملزمان کے ٹھکانوں کی اطلاع بھی ملی۔ بہت جلد یہ لوگ پولیس کی حراست میں ہوں گے۔‘
خیال رہے کہ معروف فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ بھی کم از کم 10 روز تک پولیس کی گرفت میں نہیں آئی تھیں اور پولیس کی متعدد کوششیں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے خود گرفتاری دی تھی۔

خواتین کی گرفتاری کے سرکاری اعداد و شمار:

پنجاب بھر میں نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں کئی خواتین کو بھی گرفتار کیا ہے۔
تحریک انصاف ان گرفتاریوں پر تنقید کر رہی ہے۔ پولیس نے خواتین کی گرفتاریوں اور رہائی کے اعداوشمار پر مبنی رپورٹ نگران وزیر اعلی پنجاب کے حوالے کی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب رپورٹ کے مطابق پنجاب کے آٹھ مختلف شہروں سے 66 خواتین کو گرفتار کیا گیا۔ لاہور سے 37 فیصل آباد سے آٹھ راولپنڈی سے 12 خواتین گرفتار ہوئیں۔ اسی طرح گجرات، چکوال سے ایک،  پاکپتن سے دو خواتین کو گرفتار کیا گیا جبکہ ملتان سے چار خواتین کو پولیس نے گرفتار کیا۔
رپورٹ کے مطابق ان گرفتار خواتین میں سے 38 خواتین ضمانت پر رہا ہوچکی ہیں۔

شیئر: