Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خراب معاشی حالات، ’شہری جانوں کو خطرے میں ڈال کر یورپ جانے پر مجبور‘

بحیرہ روم میں حادثے کی شکار کشتی میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حمید اقبال بھٹی دو دہائیوں سے سعودی عرب میں کام کرتے ہوئے خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن تین سال قبل پاکستان واپسی کے بعد وہ مایوسی کا شکار ہونے لگے۔
کورونا وائرس کی وبا کے باعث پاکستان کی معیشت متاثر ہوئی اور اس دوران حمید اقبال بھٹی کا ریستوران بھی بند ہو گیا۔
ان کے بھائی محمد سرور بھٹی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ روزگار کے مواقع کم ہونے اور مہنگائی نے ان کے بجٹ کو متاثر کر دیا۔
’47 برس کے حمید اقبال بھٹی نے 21 لاکھ 81 ہزار روپے اکٹھے کیے تاکہ ایک انسانی سمگلر ان کو یورپ پہنچا سکے۔ ان کو امید تھی کہ یورپ جا کر دوبارہ سے زندگی صحیح ہو جائے گی۔‘
محمد سرور بھٹی جن کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، نے کہا کہ ’اس نے مجھے بتایا تھا کہ ’وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پھر سے کام شروع کر دے گا۔‘
لیبیا سے محمد سرور بھٹی کے چھوٹے بھائی بھی اس کشتی میں سوار تھے جو گزشتہ ہفتے یونان میں ڈوب گئی تھی۔ یہ حالیہ برسوں میں تارکین وطن کو پیش آنے والا درد ناک واقع تھا۔
محمد سرور بھٹی کے مطابق ان کے بھائی ابھی تک لاپتہ ہیں اور ہلاکت کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تارکین وطن، ان کے رشتہ داروں، ماہرین اور روئٹرز کی جانب سے معلومات کے جائزے کے مطابق حالیہ مہینوں میں معاشی حالات کی وجہ سے بہت سے پاکستانی شہری اسی نوعیت کے خطر ناک سفر پر نکلے۔
گزشتہ دو برسوں سے پاکستان میں سرکاری سطح پر بے روزگاری کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے گئے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معاشی امور کے ماہر حفیظ پاشا نے بتایا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 11 سے 12 فیصد ہے۔

محمد سرور بھٹی کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

’ماں آپ کو حج پر بھیجوں گا اور اپنی بہن کی شادی بھی کر دوں گا‘

یورپ بارڈر اور کوسٹ گارڈ کے ادارے فرانٹکس کے مطابق جنوری اور مئی کے درمیان یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر ایک لاکھ دو ہزار غیرقانونی تارکین وطن کا پتا چلا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے اور 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
فرانٹکس کے ترجمان نے روئٹرز کو ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ مصری اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کے بعد پاکستانی تارکین وطن تیسرے نمبر پر ہیں جو لیبیا کے ذریعے پہنچتے ہیں۔
رواں برس کے اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار 971 پاکستانی تارکین وطن اٹلی پہنچے تھے۔
بحیرہ روم میں یونان کے ساحل کے قریب کشتی الٹنے کے بعد پاکستان نے پیر کو یوم سوگ کا اعلان کیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار اور ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کے مطابق کم سے کم 209 پاکستانی اس کشتی میں سوار تھے۔
گزشتہ ہفتے کے حادثے سے قبل رواں برس متعدد پاکستانی بحیرہ روم میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
38 سالہ محمد ندیم بھی اس کشتی میں سوار تھے جو فروری میں لیبیا کے قریب ڈوب گئی تھی، اس میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ندیم کا تعلق گجرات سے تھا اور ان کے تین بچے تھے۔ وہ ایک فرنیچر سٹور میں بطور سیلز مین کام کر رہے تھے۔
ان کی والدہ کوثر بی بی کا کہنا ہے کہ سیلزمین کی نوکری میں ان کا گزارہ نہیں ہو رہا تھا اس لیے اس نے ایک جاننے والے کو اٹلی جانے کے لیے  پیسے دیے۔
’وہ کہتا تھا کہ ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وہ مجھے کہتا کہ ماں آپ کو حج پر بھیجوں گا اور اپنی بہن کی شادی بھی کر دوں گا۔‘
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے روئٹرز کو بتایا کہ یورپ کے سفر پر جانے والے زیادہ تر افراد غیر ہنر مند یا مزدور ہوتے ہیں اور ان کے لیے ورک ویزا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

تارکین وطن کو دوران سفر خراب موسمی حالات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بیرون ملک روزگار اور اچھی زندگی

ندیم کے کزن نے بتایا کہ محمد ندیم نے پڑوس میں اپنے دوستوں اور دیگر لوگوں کو دیکھا تھا کہ وہ کامیاب ہیں اور اس کو امید تھی کہ وہ بھی کامیاب ہو جائے گا۔
محمد ندیم کے گھر سے کچھ ہی کلومیٹر کے فاصلے پر محمد ناظم نے اپنا گھر تعمیر کیا ہے۔
54 سالہ محمد ناظم اٹلی کے شہر فیریرا میں رہتے ہیں۔ وہ کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں۔ ان کا اٹلی میں بھی گھر ہے لیکن اب پاکستان میں بھی بنایا ہے۔
ناظم کا کہنا ہے کہ وہ 90 کی دہائی میں ترکی کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ لوگ کیوں پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں، غریب آدمی کیا کرے گا۔ ملک کے حالات ہی اب ایسے ہیں۔‘
رواں ماہ آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ایک پروگرام کی ضرورت ہو گی یا اس کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ نے یونان کشتی حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان مزدوروں کو بیرون ملک بھیجنے میں سرفہرست ہے۔ گزشتہ برس تقریباً آٹھ لاکھ 30 ہزار افراد اوورسیز ورکرز کے طور پر رجسٹر ہوئے ہیں۔  
مائیگرینٹ ریسورس سینٹر کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے مواقع محدود ہے اور بہت سے تارکین وطن ایسے ایجنٹوں کے ذریعے جانے کا انتظام کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ غیرقانونی طور پر جلد اور کم خرچ پر جایا جا سکتا ہے۔

’پہلی والی حالت میں واپس آ گیا ہوں‘

29 برس کے اسرار مرزا نے یہی راستہ اپنایا تھا۔ وہ ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کر رہے تھے اور گزشتہ برس ان کو نوکری سے نکالا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ قرض لے کر وہ بذریعہ جہاز ترکی پہنچے اور وہاں ایک سمگلر نے زمینی راستے کے ذریعے یونان پہنچایا تاہم ان کو ترکی واپس بھیجا گیا اور پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا۔
’مجھے معلوم نہیں کہ میں زندہ واپس آنے پر خوش ہوں۔ میں پہلی والی حالت میں واپس آ گیا ہوں۔ میرے پاس آمدن نہیں اور اب قرض بھی ادا کرنا ہو گا۔

شیئر: