Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانداد نے شارجہ میں آخری گیند پر چھکا کس کے بیٹ سے لگایا تھا؟

جاوید میانداد سے چھکا پڑنے کے بعد چیتن شرما ولن بن گئے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)
سنہ 1986 میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل کی آخری گیند پر جاوید میانداد کے چھکے سے پاکستان نے تاریخی فتح حاصل کی۔ یہ ون ڈے کرکٹ کا وہ مشہور شاٹ ہے جس کی یاد 37 برس بعد بھی شائقین کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔
پاکستان کے باسیوں کے لیے یہ یاد باعثِ فرحت ہے اور انڈین عوام کے لیے کڑوی کسیلی۔
اس یادگار کامیابی کی پاکستان کرکٹ میں بڑی اہمیت ہے۔ قومی ٹیم پر اس نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ پاکستان نے پہلی دفعہ ون ڈے ٹورنامنٹ جیتا جبکہ انڈیا سنہ 1983 میں ورلڈ کپ جیت چکا تھا۔ سنہ 1985 میں اس نے بینسن اینڈ ہیجز ورلڈ چیمپیئن شپ کے فائنل میں پاکستان کو چِت کیا۔
آسٹریلشیا کپ کے فائنل سے پہلے پاکستان کے خلاف آٹھ ون ڈے میچوں میں سے چھ میں انڈیا نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس میچ کے بعد پاکستان کو روایتی حریف پر ایسی نفسیاتی برتری حاصل ہوئی کہ آئندہ 15 برس اس کا پلڑا بھاری رہا۔
کامیابیوں کے سلسلے کی ایک نمایاں مثال سنہ 1987 میں سامنے آئی۔ پاکستان نے انڈیا میں ون ڈے سیریز کے چھ میں سے پانچ میچ جیتے۔ انڈیا کے حصے میں آنے والی واحد جیت کا قصہ بھی دلچسپ ہے اس لیے لگے ہاتھوں اسے بھی بیان کر دینا چاہیے۔
یہ حیدر آباد دکن ہے۔ سیریز کا تیسرا میچ اور اس کی آخری گیند۔ میزبان ٹیم فتح سے دو رنز کی دوری پر ہے۔ عبدالقادر نے ایک رن بنا لیا، دوسرا بنانے کی کوشش میں وہ رن آؤٹ ہو گئے۔ دونوں ٹیموں کا سکور برابر۔ قانون کی رو سے جس ٹیم کی وکٹیں کم گری تھیں وہ جیت کی حقدار ٹھہری۔انڈیا کے چھ، پاکستان کے سات کھلاڑی آوٹ ہوئے تھے۔ عبدالقادر کو ایک رن پر صبر آ جاتا اور وہ ناممکن الحصول رن لینے کے چکر میں وکٹ نہ گنواتے تو میچ ہاتھ سے نہ نکلتا، کیونکہ یکساں تعداد میں وکٹیں گرنے کی صورت میں جیت کا فیصلہ اننگز کے پہلے 25 اووروں میں زیادہ رنز کی بنیاد پر ہوتا۔ اس اعتبار سے پاکستان کو سبقت حاصل تھی۔ ایک گھپلا اور ہوا۔ کپیل دیو نے آخری گیند کی تو دائرے میں چار کے بجائے تین فیلڈر تھے لیکن امپائر نے گیند کو نو بال قرار دینے کی زحمت گوارا نہ کی تو یہ بات بھی مہمان ٹیم کے خلاف گئی۔
اب ہم آپ کو دوبارہ شارجہ لیے چلتے ہیں اور میانداد کے کارہائے نمایاں پر بات کرتے ہیں جس سے جڑی حکایات اب بھی بیان ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً وسیم اکرم کی کتاب ’سلطان: اے میموئیر‘ سے معلوم ہوا کہ میانداد نے جس بلے سے تاریخ رقم کی وہ وسیم اکرم کا تھا۔ آخری اوور سے پہلے میانداد کو لمبے بلیڈ والے بلے کی ضرورت محسوس ہوئی، یہ بلا وسیم اکرم کے پاس ہی تھا سو اسے کام میں لایا گیا۔
وسیم اکرم نے لکھا ’یہ بلا پھر مجھے واپس نہیں ملا۔ اب تو جاوید میانداد اسے 10 بار نیلام کر چکے ہوں گے۔‘
بات سے بات نکلتی ہے۔ کسی دوسرے کے بلے سے معرکہ سرکرنے کا ذکر ہو تو لامحالہ شاہد آفریدی کا نام ذہن میں ضرور آتا ہے جنہوں نے سچن تندولکر کے بلے سے سری لنکا کے خلاف 37 گیندوں پر ون ڈے میں تیز ترین سینچری کا ریکارڈ بنایا۔
تندولکر نے وقار یونس کو اپنا بلا نمونے کے طور پر دیا تھا کہ وہ اس جیسا بلا سیالکوٹ سے بنوا دیں لیکن اس سے پہلے یہ آفریدی کے ہاتھ چڑھ گیا۔ 
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب دوبارہ میاں داد کے  چھکے کی طرف پلٹتے ہیں۔
 18اپریل 1986 کو شارجہ میں جب دونوں ٹیمیں میدان میں اتریں تو بڑے ٹورنامنٹ کی فاتح اور گزشتہ میچوں میں حریف ٹیم پر برتری کی بنا پر انڈین ٹیم کو اپنی کامیابی کا بڑا یقین تھا۔ اس کے حامی بھی جشنِ فتح کی نیت سے میچ دیکھنے آئے تھے۔
یہ خوش فہمی کچھ ایسی بے جا بھی نہ تھی کیونکہ میچ کے بیش تر حصے میں انڈین ٹیم حاوی رہی، اس کی جیت کے امکانات روشن رہے حتیٰ کہ ہمارے ہیرو میانداد بھی ایک مرحلے پر جی ہار بیٹھے اور سوچ لیا کہ 245 رنز کے تعاقب میں ٹیم کسی طرح بس 50 اوور کھیل کر ہار کا مارجن کم کر لے تاکہ کچھ عزت رہ جائے۔

بشریٰ انصاری نے سلمیٰ آغا کے گانے ’اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘ کی پیروڈی میں توصیف احمد کا ذکر بھی کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

میانداد کے ساتھی بلے باز ان کا ساتھ چھوڑتے گئے، لیکن وہ بڑی مہارت اور دانائی سے رنز بٹورتے رہے، گیند باؤنڈری لائن سے پار تو کم ہی گئی لیکن انڈین فیلڈروں کو میانداد نےبہت پدایا، وکٹوں کے درمیان تیز دوڑ کر بہت سے رنز چرائے اور پاکستانیوں کو امید کی ڈور سے باندھے رکھا۔
آخری پانچ اوورز میں 51، تین میں 31 اور آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے۔ آج جب کرکٹ میں بہت زیادہ تیزی آ گئی ہے تو بھی اتنے رنز بنانا آسان نہیں، اس زمانے میں تو یہ اور بھی محال تھا۔ میانداد دھیرج سے ہدف کی طرف بڑھتے گئے اور بات آخری وکٹ اور آخری گیند تک آن پہنچی۔
اوور کی پانچویں گیند پر توصیف احمد نے جیسے تیسے کر کے ایک رن لے کر میانداد کو آخری گیند کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا جس میں اظہر الدین کا بھی حصہ تھا جنہوں نے رن آوٹ کا آسان چانس مِس کیا۔
آخری گیند پر جیت کے لیے چار رنز چاہیے تھے۔ میانداد کو توقع تھی کہ چیتن شرما یارکر کریں گے تو وہ کریز سے تھوڑا باہر نکل کر کھڑے ہوئے۔ توقع کے عین مطابق بولر نے یارکر کی کوشش کی تو گیند فل ٹاس بن گئی جسے میانداد نے باؤنڈری لائن سے باہر پھینک کر میدان کے اندر اور باہر پھیلی سنسنی کا خاتمہ کر دیا۔ 
سنیل گواسکر میانداد کی اس اننگز کی ہمیشہ بڑی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی رائے کی وقعت کئی حوالوں سے ہے: ایک تو وہ عظیم کھلاڑی ہیں۔ دوسرے انہوں نے اس میچ میں 92 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ تیسرے میانداد اگر 116 رنز بنا کر مین آف دی میچ تھے تو وہ مین آف دی ٹورنامنٹ۔
گواسکر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ جب بھی اس میچ کا آخری اوور دیکھیں خود کو ناخن چبانے سے باز نہیں رکھ پاتے۔ 

وسیم اکرم نے اپنی کتاب ’سلطان : اے میموئیر‘ میں لکھا کہ ’میرا بلا پھر مجھے واپس نہیں ملا۔‘ (فوٹو: امیزون)

اس میچ کے بعد میانداد ہیرو اور چیتن شرما ولن بن گئے۔ میانداد کی شہرت کو پر لگ گئے۔ ان کی عظمت کا نقش اور گہرا ہوا۔ مادی فوائد بھی انہیں بہت حاصل ہوئے۔ ان کا چھکا گانوں کا موضوع بنا۔
دوسری طرف چیتن شرما کے لیے یہ چھکا داغِ ندامت اور چھیڑ بن گیا۔ وہ انگلینڈ میں ٹیسٹ میں 10 وکٹیں لینے والے پہلے انڈین بولر بنے۔ ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک کی لیکن ان کی پہچان وہ چھکا ہی بنا رہا۔ آج بھی انہیں اسی حوالے سے جانا جاتا ہے۔
چیتن شرما کو اگر اس میچ نے ولن بنا دیا تو اس میں توصیف احمد کے چھوٹے سے پارٹ نے بھی بڑی اہمیت اختیار کی۔ بشریٰ انصاری نے سلمیٰ آغا کے گانے ’اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘ کی پیروڈی کی تو اس میں توصیف کا ذکر بھی آیا:
اک چھکے کے جاوید کو سو لاکھ ملیں گے
توصیف بیچارے کو درہم آٹھ ملیں گے
توصیف احمد نے صحافی اقبال خورشید کو انٹرویو میں میچ کے آخری لمحات کی جو کہانی سنائی اسی پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
’بہ ظاہر ہم میچ ہار چکے تھے،مگر جاوید بھائی آخر کے اوورز میں بڑے شاٹس کھیلنے لگے۔ ایک بیٹسمین آؤٹ ہو گیا۔ اب تین گیندوں پر پانچ رنز چاہیے تھے۔ میں پیڈز کیے بیٹھا تھا، مگر عمران بھائی نے ذوالقرنین کو بھیجا۔ میں نے سکون کا سانس لیا، لیکن پہلی ہی گیند پر وہ آؤٹ ہو گئے۔ جب میں میدان میں اترا، تب دو گیندوں پر پانچ رنز درکار تھے، اور دباؤ کا یہ عالم تھا کہ وکٹ پر پہنچنے تک مجھے جاوید بھائی دکھائی ہی نہیں دیے۔ خیر، اُنہوں نے پوچھا کیا کرو گے؟ میں نے جواب دیا میں بس بھاگ جاؤں گا۔ دراصل میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے گیند کیپر کے ہاتھوں میں چلی جائے، میں کریز چھوڑ دوں گا۔‘

شیئر: