Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی میں سموگ اور آلودگی سے بچے سب سے زیادہ متاثر کیوں ہو رہے ہیں؟

فضائی آلودگی میں باہر جائیں تو بیماری اور گھر میں رہیں تو غربت مار ڈالے گی۔ فوٹو عرب نیوز
دہلی کے ہسپتال کے بستر پر موجود چہرے پر نیبولائزر ماسک لگائے روتے ہوئے ایک ماہ کے اویانش تیواری کو بہت زیادہ کھانسی بھی آ رہی ہے۔ 
ہسپتال کے ڈاکٹر بچے کی اس حالت کا الزام  نئی دہلی کی تیز ہوا پر لگاتے ہیں۔
دہلی شہر میں حکومت کے زیر انتظام چاچا نہرو بال چکتسالیہ ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں سانس کی بیماری کا شکار بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ 
دہلی جو 3 کروڑ کی آبادی پر مشتمل میگا سٹی ہے ہر سال موسم سرما میں فضائی آلودگی کا بھرپور شکار ہوتا ہے۔ یہاں کے رہائشی دمہ اور نمونیا کے شکار ہیں۔
کرہ ارض کے سب سے زیادہ آلودہ بڑے شہروں میں دہلی کا باقاعدہ شمار کیا جاتا ہے، جس کی وجہ یہاں موجود  فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں کے علاوہ گرد و نواح کے دیہات میں چاول کے بھوسے کو جلایا جانا ہے۔
اویانش کی ماں 26 سالہ جولی تیواری  نے بتایا ہے کہ اس موسم میں ہم جدھر بھی دیکھتے ہیں زہریلا سموگ ہی ہوتا ہے۔
اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے جولی نے بتایا کہ ہم اس زہریلے دھوئیں سے بچنے کے لیے ہر ممکن حد تک دروازے، کھڑکیاں بند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس موسم میں بچوں کو سانس لینے میں انتہائی مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ فوٹو روئٹرز

سموگ مانیٹرنگ فرم کے مطابق دہلی میں جمعرات کی سہ پہر سموگ کے اثرات 390 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر تک پہنچ گئے جو سانس کے ذریعے خون میں شامل ہو سکتے ہیں۔
دہلی کے سب سے زیادہ آلودہ علاقوں کے ایک ہسپتال میں بچوں کی ڈاکٹر ڈھولیکا ڈھینگرا نے بتایا ہے کہ علاقے میں اس موسم کے دوران ہسپتال کی ایمرجنسی میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔

اس موسم میں ہم جدھر بھی دیکھتے ہیں زہریلا سموگ نظر آتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈاکٹر نے بتایا کہ سموگ سے آلودہ ہوا بچوں کے پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے جس سے ان کی صحت اور نشوونما پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ یونیسیف کی گذشتہ برس کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سائنسی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آلودہ ہوا میں سانس لینے والے بچوں میں انفیکشن ہونے کا خطرہ  سب  سے زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ڈھینگرا نے بتایا کہ بچے بڑوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تیزی سے سانس لیتے ہیں اور ان کے دماغ، پھیپھڑے اور دیگر اعضا پوری طرح سے تیار نہیں ہوتے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچے ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے، دوڑتے بھاگتے ہیں جس کے باعث سانس  لینے کی شرح  بڑھ جاتی ہے  اور یہی وجہ ہے کہ وہ آلودگی کے اثرات کا زیادہ شکار ہیں۔

حکومتی کوششیں ہوا کے معیار کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

یہ موسم بچوں کے لیے بہت کٹھن ہے کیونکہ انہیں سانس لینے میں انتہائی مشکل کا سامنا رہتا ہے۔
یہاں موجود سبزی فروش امتیاز قریشی کے گیارہ ماہ کے بیٹے محمد ارسلان کو سانس کی تکلیف کے باعث رات گئے ہسپتال لایا گیا۔
پریشان حال امتیاز قریشی نے بتایا کہ علاقے میں ہمیں دن رات ایسی ہی فضا میں رہنا پڑتا ہے۔
سبزی فروش کا کہنا تھا کہ اس فضائی آلودگی میں اگر میں گھر سے باہر جاتا ہوں تو سانس کی بیماری مار ڈالے گی اور اگر باہر نہ جاؤں تو غربت مار ڈالے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں مفت علاج اور ادویات فراہم کی جاتی ہیں، اس موسم میں کوئی بھی مریض اپنی صحت کی دیکھ بھال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

شیئر: