Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سُست ڈیٹا شیئرنگ‘، اے آئی پالیسی مزید تاخیر کا شکار

حکام کے مطابق ڈیٹا شیئرنگ کا ایک قومی میکانزم بننے تک اے آئی پالیسی ناقابل عمل رہے گی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کے فروغ اور ریگولیشن کے لیے قومی پالیسی ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہوگئی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ ’اس کی منظوری کا معاملہ آئندہ حکومت تک موخر ہو سکتا ہے۔‘ 
پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلٰی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’اس پالیسی کو رواں سال دسمبر میں حتمی شکل دی جانا تھی، تاہم کچھ وجوہات کے باعث اس میں تاخیر ہو رہی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ آئندہ حکومت کے قیام تک موخر ہو جائے۔‘  
حکام کے مطابق ’پالیسی میں تاخیر کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے معلومات کے تبادلے میں سُستی ہے اور ڈیٹا شیئرنگ کا ایک قومی میکانزم بننے تک یہ پالیسی ناقابل عمل رہے گی۔‘
وزارت آئی ٹی کے متعلقہ حکام نے مزید کہا کہ ’اے آئی کے موثر نظام کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے معلومات کی ترسیل کے نظام سے منسلک ہوں اور اس میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔‘

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی محتاط حکمتِ عملی

 آرٹیفیشل انٹیلی جنس پالیسی کی تیاری اور منظوری کی براہ راست نگرانی کرنے والی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پالیسی میں تاخیر کی دوسری اہم وجہ اے آئی کی دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔‘
’وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی چاہتی ہے کہ ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ہی مرتبہ ایک جامع پالیسی جاری کی جائے، بے شک اس میں تاخیر ہو جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹیکنالوجی میں بہتری مسلسل عمل ہے اور حکومت ایک حتمی مسودہ تیار کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کو شامل کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے مجوزہ پالیسی پر متعلقہ حلقوں کی تجاویز پر بدستور غور جاری ہے۔‘
تاہم وزارت کے ترجمان سید جنید امام نے بتایا کہ ’حکومت اس پالیسی پر بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کر رہی ہے اور اس کا حتمی مسودہ تیار کرنے سے قبل تمام مقامی اور غیرملکی ماہرین سے استفادہ کرے گی۔‘

ترجمان وزارتِ آئی ٹی کے مطابق حتمی مسودے سے قبل مقامی اور غیرملکی ماہرین سے استفادہ کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اس معاملے پر احتیاط سے کام لے رہی ہے کیونکہ وہ ایک مرتبہ ہی موثر پالیسی لے کر آنا چاہتی ہے اور ہم ایسی پالیسی نافذ نہیں کرنا چاہتے جس میں کوئی خرابی باقی رہ جائے۔‘

انتخابات کے باعث مزید تاخیر ممکن

سید جنید امام کے مطابق ’ابھی پالیسی کے ابتدائی مسودے پر کافی کام باقی ہے اور اس کا فروری سے پہلے حتمی شکل اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
’ہم توقع کر رہے تھے کہ دسمبر تک ابتدائی مسودے کو حتمی شکل دے کر وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیج دیں گے تاہم اب یہ فروری تک ہوتا نظر نہیں آ رہا۔‘
سید جیند امام نے مزید کہا کہ ’انتخابات کی وجہ سے اے آئی پالیسی مزید تاخیر کا شکار بھی ہو سکتی ہے، تاہم نگراں وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف کی اس میں بے پناہ دلچسپی کی وجہ سے وزارت کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح یہ نگراں حکومت کے دور میں ہی پاس ہو جائے۔‘
ان کے مطابق ’اے آئی پالیسی کے بنیادی مسودے پر کام جنوری میں شروع ہوا تھا اور جولائی تک یہ عوامی رائے کے لیے تیار کر لیا گیا تھا، تاہم اس پر آنے والی تجاویز کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ اے آئی پالیسی کی منظوری کا معاملہ آئندہ حکومت تک موخر ہو سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کسی عُجلت میں پالیسی منظور کر کے کسی غلطی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔‘
اسفندیار خان کے مطابق ’مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اعلٰی سطحی کمیٹی قائم کی جائے گی جو اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اسے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو بھجوائے گی۔‘

عوام کے لیے پائیدار اور دیرپا فوائد اہم مقصد

پاکستان کی اے آئی پالیسی کے مجوزہ مسودے میں اس کا مقصد عوام کے لیے پائیدار اور دیرپا فوائد کا حصول بیان کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے ذاتی ڈیٹا کے شفاف اور جائز استعمال اور انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے اشتراک پر زور دیا گیا ہے۔
اس مسودے کے مطابق پاکستان کی اے آئی پالیسی شواہد پر مبنی اور اہداف کے حصول پر مُرتکز، استعمال میں آسان، اے آئی اور منسلک ٹیکنالوجی کے اشتراک، ریسرچ سینڑز کے قیام میں معاون ثابت ہو گی۔
’یہ پالیسی گورننس میں بہتری اور اثرات کے انتظام، زندگیاں بہتر بنانے اور معاشی وسائل کی پیداوار، سرکاری خدمات کی بہتری، اے آئی معیشت کے فروغ اور اس میں ورک فورس کی شمولیت، انڈسٹریز میں اے آئی ٹیکنالوجی کے موثر استعمال اور تربیتی مواقع فراہم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو گی۔‘
پالیسی میں اے آئی کے اہداف کے فروغ کے لیے مرکزی سطح پر ایک اے آئی فنڈ قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

آئی ٹی ماہرین کہتے ہیں کہ آئی ٹی پالیسی میں تاخیر کی ایک وجہ طویل عرصے کی نگراں حکومت بھی ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

پاکستان اے آئی کے کھیل میں پیچھے

آئی ٹی انڈسٹری سے منسلک ماہرین کے مطابق حکومتوں اور اداروں کے عدم استحکام کے باعث پاکستان کی اے آئی پالیسی پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس میں مزید تاخیر پاکستان کو اس میدان میں پیچھے دھکیل رہی ہے جس کی ایک وجہ طویل عرصے کی نگراں حکومت بھی ہے۔
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی پالیسی کنسلٹنٹ اور پاکستان کے ایک بڑے سافٹ ویئر ہاؤس کی نائب صدر حِرا زینب کے مطابق ’پاکستان اے آئی کے میدان میں تاخیر سے داخل ہو رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کی مجوزہ پالیسی میں قابل عمل عوامل کم ہیں۔‘

مفروضے اور غیر حقیقی اہداف

حِرا زینب نے مزید بتایا کہ ’اس مجوزہ پالیسی سے اگرچہ پاکستان میں اے آئی پر بات ہونا شروع ہوئی ہے تاہم پوری پالیسی مفروضوں اور غیر حقیقی اہداف پر مشتمل ہے۔‘
حرا زینب کے مطابق ’پالیسی کے اہداف اعدادوشمار پر مشتمل ہیں اور ان اعدادوشمار کے حصول کے لیے طریقہ کار مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔‘
’مجوزہ پالیسی میں 400 پراجیکٹس رکھے گئے ہیں اور ایک پراجیکٹ کے لیے 10 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس رقم میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا ایک آرکیٹیکٹ نہیں ملتا تو پورا پراجیکٹ کیسے بنے گا؟‘

ماہرین کے مطابق ’پاکستان کی مجوزہ ’اے آئی پالیسی‘ مفروضوں اور غیر حقیقی اہداف پر مشتمل ہے‘ (فائل فوٹو: پکسابے)

25 ہزار گریجوایٹس میں 10 ہزار انڈسٹری کے قابل

سافٹ ویئر ہاؤس کی نائب صدر حِرا زینب نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے سالانہ 25 ہزار گریجویٹس میں سے صرف 10 ہزار فوری طور پر انڈسٹری میں کام شروع کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‘
’باقی 15 ہزار کو مزید ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی اے آئی پالیسی میں تربیت کی بہت زیادہ اہمیت ہونی چاہیے۔‘   

فری لانسنگ پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے منصوبے کا فُقدان

حِرا زینب کے مطابق مجوزہ پالیسی میں وعدے بہت بڑے کیے گئے ہیں، تاہم اس کے فری لانسنگ پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کا لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔
’اکانومی اور اے آئی کے کام کرنے کا تجزیہ بھی فراہم نہیں کیا گیا، تاہم یہ مثبت بات ہے کہ اس پر ماہرین سے تجاویز حاصل کی جا رہی ہیں اور قومی سطح پر اے آئی حکمت عملی کے لیے بنیادی سوچ کا آغاز ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اے آئی کے میدان میں ترقی کے لیے متعلقہ اداروں میں استحکام اور تسلسل لایا جانا چاہیے اور اس کو اعلٰی سطح پر ترجیحی عوامل میں شامل کیا جانا چاہیے۔‘

شیئر: