Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں انتخابات: بی جے پی تین، کانگریس ایک ریاست میں آگے

تلنگانہ میں بھارت راشٹرا سمیتھی(بی آر ایس) 40 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی چار ریاستوں راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی ) کو برتری حاصل ہے جبکہ تلنگانہ میں بی جے پی کی حریف انڈین نیشنل کانگریس آگے ہے۔
ابھی تک کے غیرحتمی نتائج کے مطابق مدھیہ پردیش کی 230 نشستوں میں سے بی جے پی 164 جیت کر آگے ہے جبکہ کانگریس 65 نسشتیں حاصل کر پائی ہے۔
راجستھان کی 199 نشستوں میں سے 117 پر بی جے پی آگے ہے جبکہ کانگریس کی 67 سیٹیں ہیں۔
چھتیس گڑھ میں 90 نشستوں پر پولنگ ہوئی اور بی جے پی ان میں 56 کے ساتھ آگے ہے جبکہ کانگریس صرف 34 نشستوں پر برتری حاصل کر پائی ہے۔
ریاست تلنگانہ میں کانگریس کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ یہاں بی جے پی نے بہت کم سیٹیں لی ہیں۔ ابھی تک اعداد وشمار کے مطابق تلنگانہ میں کانگریس نے 119 میں سے 63 جبکہ بی جے پی نے صرف آٹھ نشستوں پر برتری حاصل کی ہے۔
تلنگانہ میں بھارت راشٹرا سمیتھی(بی آر ایس) 40 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
ان تین ریاستوں میں بی جے پی کی فتح نے  مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کو کافی حد تک پُراعتماد بنا دیا ہے۔
اس الیکشن میں بی جے پی کی کارکردگی وسیع پیمانے پر توقع سے بہتر رہی کیونکہ رائے شماری اور ایگزٹ پولز نے نریندر مودی کی پارٹی اور کانگریس کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی نشاندہی کی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حالیہ نتائج انڈیا میں ایک دہائی سے اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی اور نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اشارہ ہیں۔

کانگریس کے لیے دھچکا

اگرچہ کانگریس نے تلنگانہ جیت لیا ہے اور یہ رواں برس میں جنوبی انڈیا میں اس کی دوسری جیت ہے۔ لیکن آج (اتوار) کے نتائج کو کانگریس اور اس کے رہنما راہل گاندھی کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ان کی جماعت کا سیاسی گڑھ سمجھی جانے والی ریاستوں سے صفایا ہو گیا ہے۔

راجستھان کی 199 نشستوں میں سے 117 پر بی جے پی آگے ہے جبکہ کانگریس کی 67 سیٹیں ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

بی جے پی کے صدر جگت پرکاش نڈا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم مرکزی ریاستوں کو جیتیں گے۔ یہ نتائج ہماری بہترین سیاسی حکمت عملی اور گراؤنڈ پر محنت کا نتیجہ ہیں۔‘
نتائج سامنے آنے کے بعد تینوں ریاستوں میں بی جے پی کے ارکان اور حامیوں نے پٹاخے پھوڑے، مٹھائیاں تقسیم کیں اور ڈھول کی تھاپ پر سڑکوں پر رقص بھی کیا۔
مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہوابازی جیوترادتیہ سندھیا نے کہا کہ ’یہ تین ریاستوں میں بی جے پی کی طرف سے کلین سویپ ہے۔ مینڈیٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ ووٹرز کا مودی پر بھروسہ ہے۔‘
نریندر مودی ایک دہائی سے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی کافی مقبول ہیں اور حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ وہ اگلے سال دوبارہ انتخاب جیت سکتے ہیں۔
تاہم، کانگریس پارٹی کی قیادت میں 28 پارٹیوں کا اپوزیشن اتحاد بی جے پی کے مشترکہ طور مقابلے کے لیے اکٹھا ہوا ہے، جو ایک نیا چیلنج ہے۔
بی جے پی کو اس وقت بھی دھچکا لگا جب وہ رواں برس کے شروع میں کانگریس سے جنوب  کی اہم ریاست کرناٹک ہار گئی تھی۔
راہل گاندھی نے 2019 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد سے پارٹی کو متحرک کرنے کے لیے سخت محنت کی اور ملک بھر میں 135 دن کے دورانیے پر محیط طویل مارچ بھی کیا تھا جس میں چار ہزار سے زیادہ لوگ شامل تھے۔
راہل گاندھی نے کرناٹک کی فتح اور ہتکِ عزت کے مقدمے میں سزا پانے کے بعد پارلیمنٹ سے اپنی عارضی نااہلی کے بعد اپوزیشن اتحاد(انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس یا انڈیا) تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ اتحاد اندرونی اختلافات کی وجہ سے ریاستی انتخابات میں زیادہ نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پایا اور دوسری بات یہ کہ اکثر لوگ اس الیکشن کو بی جے پی اور کانگریس کے درمیان براہ راست مقابلہ سمجھتے تھے۔
کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینتے نے روئٹرز کو بتایا کہ ’کانگریس نے تلنگانہ میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جی ہاں، تین ریاستوں میں نقصان دیکھنا مایوس کن ہے لیکن ہم اب بھی مستحکم موجودگی کے ساتھ اپوزیشن میں ہیں۔‘
واضح رہے کہ مذکورہ چار ریاستوں میں 16 کروڑ  سے زیادہ ووٹرز ہیں اور انڈیا کی 543 رکنی پارلیمنٹ میں ان کی مجموعی طور پر 82 نشستیں ہیں۔
دوسری جانب کچھ سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی انتخابات ہمیشہ عام انتخابات کے نتائج کو متاثر نہیں کرتے یا اس وقت کے ووٹر کے مزاج کی درست نشاندہی نہیں کرتے۔

شیئر: