Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا کو زیرِحراست ملزمان کے انٹرویو نشر کرنے سے روک دیا

عدالت نے آبزرویشن دی کہ نوے فیصد واقعات میں یہ انٹرویو اعتراف جرم ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا کو زیر حراست ملزمان کے انٹرویو نشر کرنے سے روکتے ہوئے پیمرا سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
بدھ کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے یوٹیوب چینلز چلانے والے افراد کی جانب سے گاڑیاں روک کر شہریوں سے لائسنس طلب کرنے پر بھی پولیس افسران سے جواب طلبی کی۔
عدالتی حکم پر ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انوسٹیگیشن پیش ہوئے تو اُن کو بینچ کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ مسئلہ ہے کہ زیر حراست ملزمان انٹرویو پولیس کی اجازت سے کیا جاتا ہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ نوے فیصد واقعات میں یہ انٹرویو اعتراف جرم ہوتا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے ڈی آئی جی آپریشنز سے کہا کہ ’آپ نے گزشتہ سماعت پر عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ یہ سب فورا بند ہوگا۔‘
پنجاب کے پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ سلسلہ کہانی جرم و سزا سے شروع ہوا، پھر ہر چینل پر یہ مواد شروع ہو گیا۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے پوچھا کہ کیا کوئی میڈیا سے تعلق رکھنے والا فرد ملزم سے اعتراف کروا سکتا ہے؟ کیا ایک ملزم کی اجازت سے بغیر اس کا انٹریو کیا جا سکتا ہے۔
پراسیکیوٹر نے نفی میں جواب دیا تو عدالت کی جانب سے ڈی آئی جی انوسٹیگیشن سے پوچھا گیا کہ کیا پولیس یہ اجازت دے سکتی ہے؟
عدالت نے قرار دیا کہ پراسیکیوشن کا عمل انتہائی حساس اور نجی نوعیت کا ہوتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے عدالت کو زیرِ حراست افراد کے انٹرویو دکھائے گئے جو نشر ہوئے تھے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ جو لوگ ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ کھڑے ہو کر منہ میں مائیک گھسا کر انٹرویو کیے جاتے ہیں، بند ہونے چاہییں۔
’کیا کوئی صحافی کسی کو زبردستی بات کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ جیسے بات کرنے کی آزادی ہے ویسے ہی خاموش رہنے کی بھی آزادی ہے۔‘
انہوں نے آبزرویشن دی کہ ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے، ہر شخص جو کیمرا اور مائیک لے کر چل پڑے اسے صحافی نہیں کہا جا سکتا۔
جسٹس باجوہ نے کہا کہ ’اگر ایک صحافی آپ کے پاس آتا اور کوئی سوال کرتا ہے تو آپ جواب نہیں دیتے تو بات ختم ہو جانی چاہیے۔‘
وکیل احمد پنسوتا نے کہا کہ اگر پاس کھڑے پولیس افسران صحافی کو روک دیں تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ’میں آڈر پاس کر رہا ہوں کہ میڈیا زیر حراست لوگوں کا انٹرویو نہیں کر سکتا، میڈیا والے کسی گاڑی والے جا کر آئی ڈی کارڈ نہیں مانگ سکتے۔‘
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا کو اُن کی اتھارٹی ریگولیٹ نہیں کرتی۔
وکیل احمد پنسوتا نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے کہ کسی قابل اعتراض مواد کو روکے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ پیمرا اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ جمع کروائے۔ ’کسی تصویر یا ویڈیو کا اپلوڈ کرنا ہی نہیں کھینچنا بھی اجازت سے مشروط ہے۔‘
جسٹس شہرام سرور نے کہا کہ وہ پولیس افسران جو ایسے انٹریو کی اجازت دے رہے ہیں قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگر انٹرنیٹ پر ایسی چیزوں کو روکنا ہے تو پاس ایف آئی اے ہی ایک ذریعہ ہے۔
عدالت نے اگلی سماعت پر پیمرا کے سینیئر افسران کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

شیئر: