Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب سے تعلقات غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے کلیدی ہیں: اسرائیلی صدر

سعودی وزیر خارجہ کے مطابق مملکت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ’علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے‘ (فائل فوٹو: ایس پی اے)
اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ نے کہا ہے کہ ’اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانا حماس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے کلیدی اور پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے گیم چینجر ہے۔‘
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اسرائیل کے صدر جمعرات کو سوئٹرزلینڈ کے قصبے ’ڈیووس‘ میں عالمی اقصادی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ فی الحال زیرِغور ہے اور اس میں کافی وقت لگے گا، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ حقیقت میں دنیا اور خطے میں ایک بہتر مستقبل کی جنب بڑھنے کا ایک موقعہ ہے۔‘ 
اسرائیل کے صدر کی یہ بات سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے ڈیووس میں ایک پینل میں گفتگو کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے پینل میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مملکت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ’علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ’یقیناً‘ اسرائیل کو ایک بڑے سیاسی معاہدے کے حصے کے طور پر تسلیم کر لے گا، تاہم یہ فلسطینی ریاست کے ذریعے قیام امن سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بھی ڈیووس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے حوالے سے بات چیت کی۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام سے اسرائیل کی سلامتی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
تاہم اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور اُن کی دائیں بازو کی حکومت اسرائیل فلسطین تنازعے کے ’دو ریاستی حل‘ کے تصور کے خلاف ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست سے اسرائیل کی سلامتی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

اسحاق ہرتصوغ کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے اُن کے ملک میں عوامی حمایت کم ہے کیونکہ حماس کے گذشتہ برس 7 اکتوبر کے تباہ کُن حملے کے بعد صدمے کا شکار اسرائیلیوں کی توجہ اپنی حفاظت پر مرکوز ہے۔‘
اس نے اپنے خطاب کے دوران کم سن اسرائیلی ’کفار بیباس‘ کی تصویر بھی دکھائی، جو غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیل کے سب سے کم عمر شہری ہیں جن کی آج (جمعرات کو) پہلی سالگرہ ہے۔
جو ممالک آگے بڑھ کر ’دو ریاستی حل‘ کی بات کرتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے ایک بنیادی سوال کا جواب دینا چاہیے کہ انسانوں کے لیے ایک بنیادی سوال کیا ہے؟‘
انہوں نے ​​اسرائیل پر حماس کے حملے کے عالمی مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے ایران کو ’بُرائی کی سلطنت‘ قرار دیا اور کہا کہ ’حماس تہران کی پراکسیز میں سے ایک ہے۔
غزہ کے تنازعے کے دوران ہی ایران نے پڑوسی ملک عراق میں فوجی کارروائی کی ہے جسے اس نے اسرائیلی انٹیلی جنس آپریشن کے خلاف کارروائی قرار دیا ہے۔ 
یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بھی بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کرکے بین الاقوامی جہاز رانی کو متاثر کیا ہے۔
 اس صورتِ حال کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر جوابی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

شیئر: