Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت سازی، سیاسی جماعتوں کی نظریں کن بڑے عہدوں، وزارتوں پر؟

17 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں آنے والی ایم کیو ایم بھی یقیناً سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے عہدے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر حکومت سازی کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
خیبر پختونخوا اور سندھ میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس واضح مینڈیٹ موجود ہیں، اس لیے انہیں کسی دوسری سیاسی جماعت کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کو کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا ہو گا۔
حکومت سازی کے لیے جوں جوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھاتی ہیں تو ایسے میں اہم اور بڑے عہدوں کے لیے لین دین ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
عام انتخابات ایک ایسے وقت پر ہوئے ہیں جب صدر مملکت اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بھی اپنی مدت مکمل کرنے جا رہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی بھی نئے سرے سے منتخب ہوں گے جبکہ کئی اور دیگر اہم عہدے بھی سیاسی جماعتوں کی نظر میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہر جماعت کسی نہ کسی اہم عہدے پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔
اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دیگر اتحادیوں کا ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بناتے ہیں تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا سب سے پہلا مطالبہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت عظمٰی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ مطالبہ نہیں مانا جاتا تو ایسی صورت میں آصف علی زرداری کو ایک مرتبہ پھر صدر مملکت بنوانا ہے۔
اگرچہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن جے یو آئی (ف) بھی ایک عرصے سے مولانا فضل الرحمن کو صدر پاکستان بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی اگر بلاول بھٹو زرداری کو اپنا وزیراعظم قبول نہیں کرتی تو ایسی صورت میں سپیکر سمیت کئی اہم وزارتیں پیپلز پارٹی کی نظر میں ہوں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صدر اور وزیراعظم کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم لیگ ن سردار ایاز صادق کو ایک مرتبہ پھر سپیکر قومی اسمبلی بنانا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس عہدے پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔
ایم کیو ایم چونکہ 17 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچی ہے وہ بھی یقیناً سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے عہدے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ سنہ 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم حکومت میں مولانا فضل الرحمن کے پاس اتنی ہی نشستیں تھیں اور ان کی جماعت کو ڈپٹی سپیکر کا عہدہ دیا گیا تھا۔
اسی طرح چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور صدر مملکت کی غیرموجودگی میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر بنتا ہے۔
مارچ میں سینیٹ میں ہونے والے انتخابات میں کون سی جماعت کتنی نشستیں حاصل کرے گی یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستیں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں اکثریت میں آ سکتی ہیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے لیے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کا مطالبہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ان آئینی عہدوں کے بعد وفاقی کابینہ میں کئی ایک وزارتیں سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر ہوتی ہیں۔ جن میں بالخصوص وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت امور کشمیر، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کئی دیگر وزارتیں شامل ہیں۔

جے یو آئی (ف) بھی ایک عرصے سے مولانا فضل الرحمن کو صدر پاکستان بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وفاق میں مسلم لیگ ن اگر سربراہی کرتی ہے تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی وزارت خارجہ سمیت کئی دیگر اہم وزارتوں کی طالب ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم بھی اب دو کی بجائے چار سے پانچ وزارتوں کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے بھی سیاسی جماعتیں اپنا پورا زور لگائیں گی۔ ان میں بالخصوص پارلیمان کی کشمیر کمیٹی، قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور، قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ، قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور اور دیگر شامل ہیں۔
اسی طرح اگر پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں حکومت بناتی ہے تو سب سے پہلے وزارت عظمٰی کا عہدہ پیپلز پارٹی کا مطمع نظر ہو گا اور تحریک انصاف کے لیے ایسا کرنا کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہو گا۔ اور اگر وہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنا وزیراعظم قبول نہیں کرتی تو ایسی صورت میں سپیکر سمیت کئی اہم وزارتیں پیپلز پارٹی کی نظر میں ہوں گی۔ تاہم پیپلز پارٹی کو اس سمجھوتے کے بدلے میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ مل سکتا ہے۔

’مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کے مطالبات کی کڑوی گولی نگلنا پڑے گی‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اس سارے کھیل میں جو اچھا لین دین کرے گا وہی زیادہ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بہترین آپشن یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت میں شامل ہو جائے اور پی ڈی ایم کے گذشتہ دور کی طرح اہم وزارتیں حاصل کر کے کارکردگی دکھائے۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق پیپلز پارٹی ایسی پوزیشن میں ہے جس کے بغیر وفاق اور بلوچستان میں حکومت نہیں بنائی جا سکتی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق ’واضح مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے جو سیاسی جماعت بھی حکومت بنائے گی، اسے بہت سے سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔ بالخصوص پیپلز پارٹی ایسی پوزیشن میں ہے جس کے بغیر وفاق اور بلوچستان میں حکومت نہیں بنائی جا سکتی، اس لیے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لیے ان کے مطالبات کو ماننا ناگزیر بھی ہو گا اور مشکل بھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور فی الوقت مقتدر حلقوں کا بھی فائدہ اسی میں ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کے مطالبات کی کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔‘
دوسری جانب شہباز شریف کو متحرک کرنے کے دو روز بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف بھی متحرک ہو گئے ہیں اور ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو حکومت سازی کے لیے گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔

شیئر: