Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اگلا وزیراعظم کوئی آزاد امیدوار بھی ہو سکتا ہے؟

آزاد امیدوار کو کامیابی کے لیے محض اکثریتی اراکین کا ووٹ درکار ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
آٹھ فروری کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کے بڑی تعداد میں کامیاب ہونے کے بعد آئندہ وفاقی حکومت کی تشکیل میں ان کے کردار کے بارے میں تبصرے جاری ہیں اور اس پہلو کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے کہ کیا اگلا وزیراعظم کوئی آزاد امیدوار بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے آئین کی شق 91 کے مطابق قومی اسمبلی کا کوئی بھی رکن وزارت عظمٰی کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہوتا ہے اور اس کو کامیابی کے لیے محض اکثریتی اراکین کا ووٹ درکار ہوتا ہے۔
پارلیمانی امور کے ماہر افتخار اللہ بابر کے مطابق پاکستان میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد اراکین جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں اس لیے ان کے کردار کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔
افتخار اللہ بابر کے مطابق ایک آزاد رکن کے لیے بھی وزیراعظم بننا اسی طرح ممکن ہوتا ہے جس طرح کسی جماعت کے رکن کو، اور وزارت عظمٰی کے عہدے کے حصول کے لیے کسی بھی رکن کو محض اکثریتی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سیکریٹری طاہر حنفی کے مطابق اگر آزاد اراکین کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرتے اور اپنا ایک الگ گروپ بنا لیتے ہیں تو سپیکر ان کو ایک الگ پارلیمانی گروپ تصور کر سکتا ہے۔
تاہم افتخار اللہ بابر کے مطابق اس صورت میں ان کو مخصوص نشستیں الاٹ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوالیہ نشان ہے اور اس کا فیصلہ ایوان میں حتمی پارٹی پوزیشن طے ہونے کے وقت ہی ہو گا۔
حالیہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے تعین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے طاہر حنفی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کے پاس موقع ہے کہ وہ کسی ایک سیٹ والی یا اقلیتی جماعت کا حصہ بن کر اسمبلی اور سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
ماہر قانون حافظ حسان احمد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر آزاد اراکین کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو صرف مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ اور تعداد کا فرق پڑے گا۔
اور مخصوص نشستوں کی تعداد کا فرق بھی ان جماعتوں کے لیے ہو گا جن کے اراکین آزاد اراکین کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے کم رہ جائیں گے۔

شیئر: