Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر عارف علوی کے وہ اقدامات جن کی وجہ سے وہ متنازع بنے

عارف علوی نے بظاہر اپنی علالت کی وجہ سے سابق وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہیں لیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ان کے عہدہ صدارت کی مدت کے اختتام پر ایوان صدر میں الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
جمعے کو مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے صدر مملکت کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ بعد ازاں سبکدوش ہونے والے صدر مملکت نے ایوان صدر کے افسران اور عملے سے مصافحہ بھی کیا۔ الوداعی گارڈ آف آنر سنیچر کو ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات سے ایک روز قبل دیا گیا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو پاکستان کے 13ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والے چوتھے جمہوری صدر ہیں۔ صدر عارف علوی کی مدت ملازمت تو ستمبر 2023 میں مکمل ہو چکی تھی تاہم صدر کے انتخاب کے لیے ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے سبب اُن کی مدت میں توسیع ہو گئی تھی۔ 
عارف علوی کے بطور صدر کردار پر مخالف سیاسی جماعتیں اور بعض سیاسی اور آئینی ماہرین سوالات اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ متنازع اقدامات بھی کیے۔ 

ماضی میں اپنی مدت پوری کرنے والے صدور کون سے ہیں؟

صدر ڈاکٹر عارف علوی سے قبل تین صدور نے اپنی مدت مکمل کی۔ پانچویں صدر چوہدری فضل الہٰی 1973 تا 1978 تک اپنی مدت پوری کی تھی۔ 
پاکستان کے 11ویں صدر آصف علی زرداری نے 2008 تا 2013 اور 12ویں صدر ممنون حسین نے 2013 تا 2018 تک اپنی آئینی مدت مکمل کی تھی۔ 

عارف علوی پاکستان اپنی مدت میں توسیع پانے والے دوسرے صدر

صدر کے انتخاب کے لیے ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے باعث عارف علوی غیرمعینہ مدت تک کے لیے اپنے عہدے پر براجمان رہے، جس سے وہ ملکی تاریخ کے ان سربراہان مملکت میں سے ایک بنے جن کی مدت میں توسیع ہوئی۔ اس سے قبل فضل الہٰی 16 ستمبر 1978 کو ضیاالحق کے صدر بننے سے قبل ایک مہینہ اضافی عہدے پر رہے۔

عارف علوی نے نو ستمبر 2018 کو صدر مملکت کا حلف اٹھایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عارف علوی نے نو ستمبر 2018 کو صدر مملکت کا حلف اٹھایا تھا اور اُن کی مدت 9 ستمبر 2023 کو مکمل ہوئی تھی تاہم صدر کے انتخاب سے قبل ہی جنوری 2023 میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی تھیں۔

نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل کب ہو گا؟

پاکستان میں ممکنہ طور پر صدارتی انتخاب آٹھ یا نو مارچ کو کروایا جائے گا۔ صدارتی انتخاب کے شیڈیول کی تیاری آئین کے آرٹیکل 41 کی روشنی میں کی جا رہی ہے۔ اس کی شق چار میں کہا گیا ہے کہ صدارت کے لیے انتخاب اس عہدے پر فائز صدر کی مدت ختم ہونے کے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم سے کم 30 دن قبل کرایا جائے گا۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی کے دور میں کچھ تنازعات بھی کھڑے ہوئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

مئی 2019 کے اواخر میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کا آغاز ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

مئی 2019 کے اواخر نے صدر مملکت کی جانب سے اس وقت کے سینیئر جج (موجودہ چیف جسٹس) کے خلاف ریفرنس بھجوایا گیا تھا (فائل فوٹو)

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس 2019 سے جون 2020 تک تقریباً 13 ماہ تک چلا۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ عارف علوی کا یہ اقدام بھی اُن کے بطور صدر متنازع کردار کی بحث کا موجب بنا۔

اپریل 2022 میں اسمبلیوں کی تحلیل

عارف علوی اپنے آئینی مدت کے دوران اس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنے جب اُنہوں نے اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ 
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دی تھی۔ 
اُس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیا اور اسے مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔

صدر مملکت نے اپریل 2022 میں عمران خان کی تجویز پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا (فوٹو: اے پی)

سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے حلف نہ لینا

صدر عارف علوی نے بظاہر اپنی علالت کی وجہ سے سابق وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہیں لیا تھا۔ صدرِ مملکت شہباز شریف کے وزیراعظم بننے سے قبل مختصر رخصت پر چلے گئے تھے۔
عارف علوی کی عدم موجودگی کے باعث چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے شہباز شریف سے حلف لیا تھا۔ عارف علوی کے حلف نہ لینے کے معاملے کو بھی سیاسی مبصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 

گورنر پنجاب کی تعیناتی پر عارف علوی کا کردار

عارف علوی نے مئی 2022 میں بھی گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے وزیراعظم کے مشورے پر عمل نہیں کیا تھا، جس پر اُن کے سیاسی حریفوں نے جانبدارانہ کردار کا الزام عائد کیا۔ نو مئی کو وفاقی حکومت نے عمر سرفراز چیمہ کو گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا لیکن صدرِ پاکستان نے انھیں ہٹانے کی تجویز مسترد کر دی تھی۔ 

وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو ہٹائے کی تجویز عارف علوی نے مسترد کر دی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا، پی ٹی آئی)

بالآخر 30 مئی کو عارف علوی نے مسلم لیگ ن کے رہنما بلیغ الرحمان کی بطور گورنر پنجاب تعیناتی کی منظوری دی تھی جس کے بعد انھوں نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھایا تھا۔ 

عام انتخابات کے لیے عارف علوی کی جانب سے تاریخ کا اعلان

ستمبر 2023 میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے پر بھی آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے، جہاں کچھ نے اسے صدر کا صوابدیدی اختیار قرار دیا تھا جبکہ دیگر کا ماننا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے اپنے خط میں 9 نومبر 2023 کو عام انتخابات کروانے کی تجویز دے دی تھی۔ خط میں صدر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔

ستمبر 2023 میں صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر 9 نومبر کو انتخابات کرانے کی تجویز دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

صدر ڈاکٹر عارف علوی کا اُن کی رضامندی کے بغیر بلوں کی منظوری کا الزام

صدارت کی مدت کے دوران ایک اور منفرد واقعہ تب پیش آیا جب ایوان صدر سے بل تو منظور ہو کر قانون کا حصہ بن گئے مگر عارف علوی بلوں پر دستخط سے انکاری رہے۔
صدر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کی تھی تاہم دونوں بل ایوان صدر سے منظور ہوئے تھے۔
اگست 2023 میں صدر عارف علوی نے اپنے ٹویٹ میں بتایا تھا کہ ’مذکورہ دونوں بلوں پر میں نے دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عملے کو مقررہ وقت کے دوران ہی دستخط کے بغیر انہیں واپس بھیجنے کی ہدایت کی تھی تاکہ انہیں غیرمؤثر ٹھہرایا جائے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر دستخط سے انکار

ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بھی دستخط کیے بغیر واپس بھیج دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کی اہلیت، بل کی درستگی کا معاملہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم کے سامنے زیرسماعت ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی پر دوران صدارت عمران خان اور پی ٹی آئی کی دوسری قیادت سے ملاقاتوں پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم حکومت نے بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دوبارہ منظور کروا لیا تھا۔ جس کے بعد بل 20 اپریل کو خود ہی ایکٹ بن گیا تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی کے اس فیصلے کو بھی سیاسی جماعتوں اور آئینی ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 

بطور صدر عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت سے ملاقاتیں

عارف علوی پر تنقید کی ایک وجہ اُن کی سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقاتیں بنیں جن میں وفاق اور صوبوں میں انتخابات کے معاملات زیر غور لائے گئے تھے۔
ان ملاقاتوں کے بعد اُس وقت کی پی ڈی ایم حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے عارف علوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایوان صدر عمران خان کی ہدایات پر چل رہا ہے۔ 

16ویں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس نہ بلانا

عارف علوی صدارتی مدت کے آخری دنوں میں بھی خبروں کی زینت اس لیے بنے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے وزیراعظم آفس سے موصول قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کی سمری منظور نہیں کی۔ 
صدر عارف علوی کی آئینی مدت پوری ہونے کے باجود اسمبلی اجلاس نہ بلائے جانے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت سے 16ویں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

شیئر: