Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت حتمی مراحل میں ہے‘

وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان سعودی کاروباری کانفرنس میں 450 بزنس ٹو بزنس ملاقاتیں ہوئیں۔ فوٹو: پی ایم آفس
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت تجارت کے شعبے پر ہونے والے اہم اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے سے متعلق بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔
جمعے کو وزیراعظم شہباز شریف کے زیرِصدارت تجارت کے شعبے کے حوالے سے اہم جائزہ اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا کے علاوہ گورنر سٹیٹ بینک اور دیگر افسران نے شرکت کی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) نے گزشتہ سال ستمبر میں آزادانہ تجارت کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کو وزارت تجارت نے ’دونوں فریقوں کے درمیان اقتصادی تعاون میں سنگ میل‘ قرار دیا تھا۔
جی سی سی نے بھی کہا تھا کہ یہ معاہدہ دونوں کے درمیان ’تعاون میں ایک اہم موڑ‘ کی عکاسی کرتا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے شرکا کو بریفینگ میں بتایا گیا کہ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) سے متعلق بات چیت حتمی مراحل میں۔
سال 2022 میں دونوں فریقین نے ایف ٹی اے کے امکانات کو جانچنے کے لیے تکنیکی سطح پر بات چیت کی تھی جس سے پاکستانی برآمدات کو چھ ملکی بلاکس میں بڑھانے میں مدد ملتی۔
اس بلاک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، قطر اور کویت شامل ہیں۔
اجلاس میں وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ راہداری تجارت کے معاہدے فعال ہو چکے ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں حالیہ پاکستان سعودی بزنس کانفرنس میں 450 بزنس ٹو بزنس ملاقاتیں ہوئیں جبکہ کامرس کے حجم میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان ٹریڈ پورٹل پر 3 ہزار سے زائد کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں نگرانی کا عمل سخت کیا گیا ہے جبکہ ایران اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی آپریشنلائیزین کے حوالے سے دونوں ممالک نے اصولی رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے ایسی تجارتی پالیسی تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس سے کاروبار میں آسانیاں اور سہولت پیدا ہو۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملکی برآمدات کو مزید مسابقتی بنانے کے حوالے سے فوری اقدامات کیے جائیں اور غیر روایتی اشیاء کی برآمدات کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں۔

شیئر: