Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردو پہ ستم

اگر ہندی سے اردو، فارسی اور انگریزی کے الفاظ نکال دیئے جائیں تو اس کا سمجھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ اس صورت میں وہ صرف سنسکرت بن کر رہ جاتی ہے
* * * * * معصوم مرادآبادی* * * * *
ملک میں اردو تعلیم کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد اب فسطائی عناصر ہندی کی درسی کتابوںمیں موجود اردو اور فارسی کے الفاظ کو نکالنے اور ہندی کو قطعی طورپر ’’شدھ‘‘بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔اس کا رروائی کا مقصد روزمرہ کی زبان میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کو جو ایک عرصے سے زبان زدخاص وعام ہیں، دیس نکالا دینا ہے۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم شکشا سنسکرتی اتتھان ٹرسٹ نے مرکزی حکومت کو ایک خط لکھ کر باقاعدہ تجاویز ارسال کی ہیں۔ ہندی روزنامہ’ ’نوبھارت ٹائمز‘‘ کے مطابق ملک بھر کے اسکولوں میں درجہ اوّل سے لے کر بارہویں کلاس تک پڑھائی جارہی این سی ای آر ٹی کی ہندی کتابوں سے اردو ، فارسی اور انگریزی کے الفاظ ہٹانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کے مذکورہ ٹرسٹ کا خیال ہے کہ این سی ای آرٹی کی ہندی کتابوں میں دیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال لسانی شفافیت کے لحاظ سے ٹھیک نہیں۔ مذکورہ تنظیم ان کتابوںسے مرزا غالب اور دیگر اردو شاعروں کا کلام بھی ہٹوانا چاہتی ہے۔
آر ایس ایس کے لیڈر اور ٹرسٹ کے سربراہ دیناناتھ بترا کہتے ہیں کہ ’’میں نے درجہ اول سے بارہویں کلاس تک پڑھائی جارہی ہندی کی سبھی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان میں دیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال زبان کی شفافیت کے خلاف ہے۔ ‘‘ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہندوستان میں بولی جانے والی تمام زبانوںمیں ایک دوسرے کے الفاظ شیر وشکر کی طرح ہیں ،جن سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب عیاں ہوتی ہے۔ جس طرح اردو میں ہندی کے سینکڑوں الفاظ مستعمل ہیں، اسی طرح ہندی میں بھی اردو ، فارسی اور انگریزی کے الفاظ موجود ہیں۔
ان الفاظ کی شمولیت سے ہندی نہ صرف یہ کہ ایک عام فہم زبان بنی ہے بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے لیکن اس ملک میں لسانی تعصب اور تنگ نظری کے علمبرداروں کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ ہندی کو’ ’شدھ‘‘ کیاجائے اور اس میں سے دیگر زبانوں کے الفاظ خارج کرکے اسے خالص بنایاجائے لیکن ان متعصب اور تنگ نظر لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہندی جس قدر سنسکرت آمیز ہوتی ہے، اتنا ہی اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور وہ عوام الناس سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہندی زبان میں سے اردو، فارسی اور انگریزی کے الفاظ نکال دیئے جائیں تو اس کا سمجھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ اسی صورت میں وہ صرف سنسکرت بن کر رہ جاتی ہے۔ درحقیقت ہندوستان میں زبانوں کے ارتقا کا عمل ایک دوسرے سے اشتراک کے ساتھ ہی مکمل ہوا ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں بولی جانیوالی زبانوں نے ایک دوسرے سے خوب استفادہ کیا ہے اور اپنے ادب کو مالامال کیا ہے۔
اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ اس میں بیشتر الفاظ ہندی، سنسکرت اور دیگر علاقائی زبانوں سے لئے گئے ہیں۔ دوسری زبانوں سے استفادہ کرنے کے معاملے میں اردو کا دامن خاصا وسیع رہا ہے۔ اردو زبان نے فارسی اور عربی سے بھی خاص طورپر استفادہ کیا ہے لیکن جب جب اردو کو فارسی یا عربی زدہ کرنے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں تب تب اس کی عوامی مقبولیت متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح جب جب ہندی کو خالص اور شدھ بنانے کے شوق میں اسے سنسکرت کے سمندر میں ڈبویا گیا ہے تب تب وہ عوام سے دور ہوگئی ہے۔ ملک میں اس وقت جو طاقتیں برسراقتدارہیں، ان کا شروع سے ہی نعرہ رہا ہے ہندی، ہندو اور ہندوستان، یعنی وہ اس ملک میں ایک زبان ایک مذہب اور ایک کلچر کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہیں۔ آج اقتدار میں ہونے کی وجہ سے انہیں یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ ہندوستان کی ملی جلی تہذیب اور مشترکہ کلچر کو ختم کرکے ایک ایسے نظام کی پرورش کریں جس میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی ثقافت اور زبان کیلئے کوئی جگہ نہ ہو۔
اردو کو ختم کرنے کی کوششیں بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال بی جے پی کے اقتدار والی ریاست ہریانہ میں عدالتی کام کاج میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ ہندی کے مشکل الفاظ بھردیئے گئے تھے۔ عقل کے اندھوں کی دلیل یہ تھی کہ اردو کے الفاظ کی وجہ سے عدالتی کام کاج میں بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب دراصل زبان کو ختم کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے لیکن تعصب میں ڈوبے ہوئے ان لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ اردو ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کی علمبردار ایک ایسی زبان ہے جس کو پروان چڑھانے میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو برادران وطن نے حصہ لیا ہے۔
دیا شنکر نسیم، برج نرائن چکبست اور منشی نول کشور سے لے کر رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری ، راج بہادر گوڑ اور جگن ناتھ آزاد تک اردو کے متوالوں کی ایسی طویل فہرست موجود ہے،جنہوں نے اردو کو خون جگر سے سینچا ہے اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وثقافت کی بہترین نمائندگی کی ہے۔ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اگر آج درسی کتابوں سے اردو کے الفاظ کو ختم کرکے اس زبان کو دیس نکالا دینے کے خواب دیکھ رہی ہیں تو یہ انکی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ اردو کی جڑیں اس ملک میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں اور اردو کے بغیر ہندی زبان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اردو سے ازلی دشمنی کے خمار میں فرقہ پرست طاقتوں نے غالب جیسے شہرۂ آفاق شاعر کو بھی درسی کتابوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ عناصر اس حقیقت کو فراموش کربیٹھے ہیں کہ بیرونی دنیا میں ہندوستان جن2 سیاسی اور ثقافتی علامتوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، ان میں پہلی علامت مہاتماگاندھی ہیں اور دوسری مرزا غالب، آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیے وہاں آپکی شناخت ان ہی دو شخصیات سے ہوتی ہے۔ گاندھی کو قتل کرنے کے بعد اب غالب کے پرزے اڑانے کے عزائم دراصل اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہیں۔

شیئر: