Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی کی ضرورت

سعودی اخبار الجزیرہ میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے:۔
ہمارے سفراءاور تبدیلی کی ضرورت
محمد آل الشیخ ۔ الجزیرہ
مجھے یہ کہنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہورہی کہ طاقت اور عزم کی مالک ریاست سلمان کی سلطنت کو نئے عہد کی ہمرکابی کیلئے نئے تازہ دم سفراءاور سفارتخانوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں میں اپنے اس احساس کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے وزیر خارجہ عادل الجبیر کی سفارتکاری کا انداز، طریقہ اور نہج پسند ہے۔ وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے۔ فیصلہ کن زبان استعمال کرتے ہیں۔ عادل الجبیر منفرد اور مختلف اسلوب کی حامل شخصیت ہیں۔ وہ متحرک وزیر ہیں۔ انکے اسی انداز نے انہیں دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ میں انفرادی شان کا مالک بنا رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی موجودہ سفراءاپنی صلاحیت اور استعداد کے حوالے سے کم درجے کے ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ سفراءاپنے وزیر کے مقابلے میں نشاط کے حوالے سے معمولی درجے کے ہیں۔ یہ سفراءسعودی عرب کے قائدانہ کردار اور نئے اسلوب سے میل نہیں کھاتے۔ ان میں سے بعض تو صلح پسند قسم کے ہیں۔ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ سفراءکاہل الوجود ہیں۔ یہ سفرا ءافواہیں اچکنے والے بہت سارے موقع پرستوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ سفراءشرانگیز خبروں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ انکا یہ طریقہ کار غیر ممالک میں سعودی عرب کی اہمیت ، حیثیت اور وقار کو مجروح کررہا ہے۔
سفیر اور سفارتخانے کی2 اہم ذمہ داریاں ہیں۔ پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ متعلقہ ملک میں سعودی عرب کی نمائندگی اور ترجمانی کرے۔ دوسری ذمہ داری سعودی شہریوں کی مدد ، تحفظ اور قیام کے دوران پیش آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو حل کرانا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بیشتر سفراءمطلوبہ ذمہ داری مطلوبہ شکل میں انجام نہیں دے رہے ۔ خاص طور پر اگر سعودی سفراءکے کردار کا تقابل دیگر ممالک کے سفراءسے کیا جائے تو ایسی صورت میں ہمارے سفراءکا کردار معمولی نظر آتا ہے۔ خصوصاً ابلاغی امو ر، میڈیا مہم ، مملکت مخالف عناصر کے تعاقب کے حوالے سے ہمارے سفراءاپنی ذمہ داری کی جانب سے آنکھیں موندے رکھتے ہیں۔ مملکت پر کیچڑ اچھالنے والوں کو عدالتوں میں کھینچنے سے گریز کرتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک بار میں نے اس سلسلے میں ایک سفیر سے گفتگو کی۔ انہوں نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کوتاہی پر سفیر کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ سفارتخانوں کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کی جاسکتی۔ اس تمام صورتحال کی ذمہ دار وزارت خزانہ ہے جو سعودی سفارتی مشنوں کو مطلوبہ بجٹ فراہم نہیں کرتی۔ سعودی سفیر اسی صورت میں متحرک ہوگا جب اُسے اس قسم کی سماجی سرگرمیوں کیلئے مطلوب فنڈ حاصل ہوگا۔اس خامی کی وجہ سے سفیر مطلوبہ مہم انجام دینے کے سلسلے میں اپنے وسائل روبہ عمل نہیں لاپارہا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سفیرِ مذکور کا یہ دعویٰ پوری طرح درست نہیں ۔ اگر دعوے کو درست بھی مان لیا جائے تب بھی سفیر سمعی و بصری ذرائع ابلاغ سے رابطہ کرکے بسا اوقات اپنا کردارادا کرسکتا ہے،سفارتخانے کے کسی عہدیدار کے توسط سے یہ کام لے سکتا ہے۔وضاحت طلب امور پر تسلی بخش بیان جاری کرسکتا ہے۔ اس قسم کے معاملات کیلئے نہ تو بجٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی اضافی ذمہ داری ادا کرنے کی ہے۔
بعض سفراءدیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد سفارتخانے کو آرام و راحت کا مرکز سمجھتے ہیں۔ وہ میلوں، تقریبات اور مختلف قسم کے پروگراموں میں بھی شاذو نادر ہی جاتے ہیں۔ایسے کسی پروگرام میں شرکت نہیں کرتے جہاں نہیں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہو۔
یہاں ایک او رنکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی ایک ملک میں کسی سعودی خاتون کو سفارتکاری کی ذمہ داری کیوں نہیں دی جاتی۔ شاہ سلمان کے عہد میں خواتین کو بہت سارے حقوق ملے ہیں۔ خواتین مزید حقوق کی آرزو مند ہیں۔ اگر سعودی حکومت کسی سعودی خاتون کو نامزد کریگی تو پوری دنیا میں اسکی پذیرائی ہوگی۔اسے تمدن کی علامت مانا جائیگا۔ سعودی عرب کےخلاف خواتین کے حقوق غصب کرنے کے الزام کی قلعی بھی کھل جائیگی۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے منجھے ہوئے سرگرم اور تجربہ کار وزیر سے ایسے اقدامات کے آرزو مند ہیں جن سے موجودہ تابناک عہد کی ترجمانی ہو اور ترقیاتی عمل کی بہتر شکل میں نمائندگی ہو۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: