Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوجوان بے راہ ہوئے توکیا بنے گا ملک کا؟

عنبرین فیض احمد۔کراچی
سائنس دان جب کوئی بھی چیز ایجاد کرتا ہے تو اس کے ذہن میں انسان کی فلاح و بہبود ہوتی ہے،زندگی آسان بنانا ہوتا ہے لیکن اگر اس کی بنائی ہوئی چیزوں کو غلط انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ سب کیلئے ہی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام تک انسا ن نے بے شمار ایسی چیزیں ایجاد کیں جن کے استعمال نے انسانی زندگی تبدیل کر ڈالی۔ تیز رفتار ترقی نے زندگی کے پہلوﺅں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی۔ طویل فاصلے مختصر ہوکر رہ گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان گھر بیٹھے بآسانی دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے سے نہ صرف فوری رابطہ کرسکتا ہے بلکہ اپنا پیغام اسے پہنچا سکتا ہے اور اس کا پیغام وصول بھی کرلیتا ہے۔ 
موبائل فون بھی ان جدید ایجادات میں سے ایک ہے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے نکلنے والی لہریں اور آواز دماغی کینسر کا سبب بن سکتی ہیں۔ موبائل فون کا استعمال اب دنیا بھر میں عام ہوچکاہے۔ اسے اب بڑی فراخ دلی سے استعمال کیا جانے لگا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے نقصانات بھی آئے دن منظر عام پر آرہے ہیں مثلا ًکبھی موٹر سائیکل یا کار میں سفر کررہے ہوں اور اس دوران موبائل کی گھنٹی بجے تو ہم اسے فوراً کان سے لگا لیتے ہیں نتیجتاً توجہ ڈرائیونگ سے ہٹ جاتی ہے اورہم حادثہ کر بیٹھتے ہیں۔ 
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موبائل فون دور حاضر کی اہم ترین ٹیکنالوجی کاحصہ ہے اور یہ چند دہائیوں کے اندر اندر ہی انسان کیلئے ناگزیر بن چکا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ،مرد ہوں یا خواتین ، ہر کسی کے پاس موبائل موجود ہونا ضروری سمجھا جانے لگا ہے، اس کے بغیر انسان خود کو ادھورا تصور کرتا ہے۔ غریب سے لے کر مالدار ترین شخص تک، ہر کوئی موبائل استعمال کررہا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے، اس کی اہمیت اور افادیت میں اسی قدر اضافہ ہورہا ہے۔اس کے ساتھ ہی موبائل فون کے منفی اثرات سے بھی کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ماہرین طب ذہنی دباﺅ، پریشانی، دل کے امراض، سردرد، کمزور نظر کے علاوہ دیگر بیماریوں کی بنیادی وجہ موبائل فون کوہی قرار دینے لگے ہیں۔ دوسری جانب موبائل فون کمپنیاں صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے دلکش پیکیج کی بھرمار کئے ہوئے ہیں۔ کوئی کمپنی ساری ساری رات فری کالز کی آفر دیتی ہے تو کوئی ہزاروں کے حساب سے ایس ایم ایس دیتی نظر آتی ہے۔ جب صارفین خاص طور پر نوجوان نسل اس لت میں پڑتی ہے اور پوری رات جاگ کر باتوں میں مشغول رہتی ہے تو وہ دن میں کسی کام کی نہیں رہتی۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
ایک اور منفی بلکہ خطرناک ترین رجحان جو موبائل فون کی وجہ سے سرایت کرتا جارہا ہے وہ ہے غیر اخلاقی مواد کے باعث نوجوانوں میں بے راہ روی۔ یہی نہیں بلکہ اسمارٹ فون کی آمد کے بعد جرائم میں بھی کسی قدر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے کا سکون برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے ۔نت نئے موبائل فونز کے حصول کیلئے یا تو چھینا جھپٹی کی جاتی ہے یا پھر پیسوں کیلئے غلط ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ 
اس قسم کے نقصانات سے بچنے کیلئے ایسی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں جن سے” سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے“ کے مصداق نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو اور وہ نوجوان جن کے ذہنو ں میں بداخلاقی نے گھر کرلیا ہے ، وہ راہ راست پر آجائیں۔ 
اس سلسلے میں اہم ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل دینے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ بچے موبائل کا استعمال کس طرح کررہے ہیں ۔اگر وہ بات کررہے ہیں تو کس سے ہورہی ہے ۔ بچوں کو دیئے جانے والے موبائل کا ڈیٹا چیک کیا جانا چاہئے ۔موبائل ہسٹری کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ انہوں نے کون کون سے لنکس استعمال کئے ہیں اور کن سائٹس پر وہ زیادہ وزٹ کرتے ہیں۔ کہیں غیر اخلاقی اور مخرب اخلاق قسم کی چیزیں تو وزٹ نہیں کررہے؟ اگر وہ ایسا کچھ کررہے ہیں تو بچوں سے شرمانے، ڈرنے یا جھجکنے کے بجائے کھل کر ان سے اس موضوع پر بات کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کی حرکتیں نہ صرف خود ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہونگی بلکہ پورے خاندان کیلئے بدنامی اور شرمساری کا سبب بن سکتی ہیں۔
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دو لڑکے کچرا تو چن رہے ہیں ، ساتھ ہی ان کے ہاتھ میں موبائل فون بھی موجود ہے۔ ایک وہ دور تھا جب موبائل کے نام تک سے واقفیت نہیں تھی تب زندگی انتہائی آسان اور پرسکون تھی۔ کوئی ذہنی کوفت تھی نہ ہی کوئی پریشانی اور نہ ہی آج کی طرح ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر۔ آج جتنی زندگی تیز رفتار بن چکی ہے اسی قدر اس میں پریشانیاں اور مشکلات بھی در آئی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج اسی موبائل فون کے کثیر استعمال کی بدولت اپنے انتہائی ضروری کام رہ جاتے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت سے لاپروائی، گھر کے کاموں سے احتراز اور سونے جاگنے کے معمولات بھی بے ترتیب ہوکر رہ گئے ہیں۔
نت نئی ایجادات کا مقصد یہی ہوتاہے کہ زندگی کو سہل بنایا جائے ۔اب تک جو مشکلات انسان بھگتتا آرہا ہے ، ان سے نجات ملے لیکن ہر نئی ایجاد کا استعمال اس کے منفی اور مثبت اثرات میں مضمر ہے جس کا اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ موبائل کمپنیوں کو حکومت کی جانب سے جس طرح کا کھلا موقع دیا ہوا ہے کہ وہ جس طرح اور جو چاہیں کھیل کھیلیں، یہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ حکومت کو ہر صورت اس جانب توجہ دینی چاہئے اور چیک کرنا چاہئے کہ موبائل کمپنیوں کی جانب سے دی جانے والی ترغیبات کے معاشرے اورخصوصاً نوجوان نسل پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ اسی نسل کے کاندھوں پر ملک و قوم کے مستقبل کا دارومدارہے۔ اگر نوجوان بے راہ روی کاشکار ہوکر رہ گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟
 

شیئر: