Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن 2018،نوجوان نسل اپنا رنگ دکھاسکے گی

کراچی( صلاح الدین حیدر ) پاکستان نئے دور میں داخل ہورہاہے لیکن کیا جولائی میں ہونے والے الیکشن کے نتائج پہلے سے کچھ مختلف ہوں گے یا معاشرے پر ان کے مثبت اثرا پڑیں گے بھی کہ نہیں ۔سوال بہت اہم ہے ، تقریباً، ہر عمر اور رجنس کے لوگ بحث و مباحثے میں مشغول ہیں ، کہ نوجوان نسل کو خاص طور پر وہ لوگ جو اب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ، ہونا بھی چاہئیے، پچھلے 50/55 سالوں سے جمہوریت کے نام پر قوم کا استحصال ہی ہوتا رہا ہے۔ لوگوں کے طرز زندگی میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے لیکن کوئی خاص نہیں ، آج بھی آبادی کا بہت بڑا طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے وجہ اس کی نا خواندگی ہے، ملک میں تعلیم کا معیار بلند ہونے کی بجائے گرتا ہی جارہاہے۔ تعلیم کم ہونے سے دیہی علاقوں میں لوگ ابھی تک زمینداروں، سندھی وڈیروں ، بلوچستان اور خیبر پختوا میں قبائلی سرداروں کے زیر اثر ہیں، انہیں اپنی زندگی یا مستقبل کے فیصلے کا اختیار کبھی دیا ہی نہیں گیا۔پشاور، مردان، نوشیرہ ، کوئٹہ میں پھر بھی فرسودہ روایات کا اثر بڑی حد تک کم ہوگیا لیکن اس حد تک نہیں کہ کسی بڑی تبدےلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔ وہاں کا نوجوان طبقہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر اب اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں مصروف ہی نہیں بلکہ فخر محسوس کرتاہے لیکن معاشرے کو کہاں تک تبدےل کر پا ئے گا یہ سوال جواب طلب ہے۔ دوسری اہم بات پاکستان میں برداری سسٹم ، محلے داری، امیدواروں کی شخصیت بہت زیادہ نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ بہت بڑا رول ادا کرتا ہے، دیہات میں خاص طور پر کسان زمینداروں کے خلاف نہیں جا سکتا۔وہ آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہی صورتحال ہے سندھ اور دوسرے صوبوں میں ، برادری سسٹم پنجاب میں میاں صاحبان ، چوہدری ، گجر، جات، کہلانے والے لوگ ووٹرز کا استحصال کرنے کے ماہر ہیں، آزاد امید وار جن کے بارے میں اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ بڑی تعداد میں منتخب ہوں گے۔ وفاداریاں، بدلنے یا ضمیر کا سودا کرنے کے لئے مشہور ہیں، ان کی منتخب ہونے کے بعد بولی لگتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تو 20لاکھ صوبائی اسمبلی اور 40لاکھ قومی اسمبلی کے لئے خرچ کی اجازت دی ہے لیکن لوگ ہر چیز کا توڑ نکال لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پیش کریں گی لیکن منشور سے زیادہ پاکستانی سیاست ذاتیات اور شخصیت کے ارد گرد گھومتی ہے،نواز شریف ، عمران خان، شیخ رشید ، مولانا سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، کے نام پر ووٹ پڑتے ہیں، منشور تو صرف دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ان تمام عناصر کے باوجود ، پچھلی چند دہائیوں سے لوگوں میں شعور پیدا ہوا ہے، اب لوگ پارٹی اور اس کے پروگرام کو اہمیت دینے لگے ہیں لیکن میڈیا ابھی تک منفی رول ادا کرتا رہا ہے، وہ صرف شخصیات کے پہلووں پر زور دینے لگا رہتاہے۔ ظاہر ہے آنے والی اسمبلی منافقت پسند لوگوں کی لونڈی بن جاتی ہے، قومی امور پسِ و پشت چلے جاتے ہیں۔اکثر پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ کا مرکز آج کل عمران ہے لیکن تمام تر انتظامات کے باوجود آصف زرداری ، فریال تالپور، نواز ، مریم ،شہباز شریف ، کا اثرو رسوخ آج بھی کسی سے کم نہیں، بلکہ ووٹ اب بھی انہیں کو پڑیں گے ، اگر میڈیا نے ذمہ داری دکھائی اور بحث و مباحثے ملک میں جگہ جگہ ہوئے، تو شاید نوجوان نسل اپنا رنگ دکھا سکے، ورنہ پھر وہی دقیانوسی روایات کی اسمبلیاں وجود میں آجائےں گی اور عوام کی قسمت ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔ کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔
مزید پڑھیں:انتخابات کا پہلا مرحلہ،کاغذات نامزدگی کی آج سے وصولی

شیئر: