Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”خوشحالی“

 
ہمارے صاحبانِ اختیار ا ور بے اختیار صاحبان دونوں ہی اُردو زبان میں انگریزی کے الفاظ ”ٹھونسنے ، دھکیلنے، گھسیڑنے “کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں
 
شہزاد اعظم - جدہ
 
  کراچی انتہائی رقیق القلب شہر ہے۔اس کا دامن بے حد وسیع ہے،اتنا وسیع کہ سندھ سے پھیلتے پھیلتے بلوچستان کی حدود میں جا پہنچا مگر پھیلاو کا سلسلہ اپنی آب و تاب سے آج بھی جاری ہے ۔شہر کراچی نے اُردو کی طینت اپنائی اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو اپنی گود میں لے لیا۔ہماری قومی زبان ”اُردو“ہے جو سب سے زیادہ کراچی میں” بولی“ جاتی ہے ۔ اردوانتہائی رقیق القلب زبان ہے۔اس کا دامن بے حد وسیع ہے۔اتنا وسیع کہ اس نے انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی، بنگالی، پرتگالی اور نجانے کون کون سی زبانوں کے الفاظ کو اپنی گود میں لے لیااور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہمارے صاحبانِ اختیار ا ور بے اختیار صاحبان دونوں ہی اُردو زبان میں انگریزی کے الفاظ ”ٹھونسنے ، دھکیلنے، گھسیڑنے “کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی الفاظ کی امریکی تلفظ کے ساتھ ادائیگی کرتے ہوئے لڑکھڑاتے انداز میں اُردو بول کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے لئے اردو بولنے سے کہیں زیادہ آسان انگریزی بولنا ہے۔ اس تاثر سے متاثر ہونے والے اپنے آپ کو اُن کے سامنے چھوٹا محسوس کرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ” ہم لوگ ترقی کیسے کرتے، ہم تو اُردو میڈیم اسکولوں میں پڑھ کر دسویں پاس کرنے والے غریب ماں باپ کے بچے ہیں۔ ہم ہی وہ وجود ہیں جن کی تعداد میں کمی کے لئے سرکا ری سطح پر آبادی میں کمی کے منصوبوں کا اعلان کیاجاتا ہے۔فلم، ٹی وی ، ریڈیو، اخبارات، سائن بورڈز، دیواری آگہی یعنی وال چاکنگ، ریلوے ٹکٹس، پلیٹ فارمز پر موجود سائبانوں ،حتیٰ کہ بجلی اور گیس کے بلوں کی پشت پرمطبوعہ تصاویراور تحاریر کے ذریعے ہرغریب و ناچار کوخاص طور پر ”انتباہی آگہی“ فراہم کی جاتی ہے کہ ”کم بچے، خوش حال گھرانہ“یا ”بچے، 2ہی اچھے۔“ ۔ہمارے ہاں کی پولیس قانون کی عملداری اور اس کے تحفظ کےلئے کچھ کر سکے یا نہ کر سکے مگرغریبوں کے گھرانوں کو ”خوشحال“ بنانے کےلئے اس حکومتی نعرے کو مبنی بر صداقت ثابت کرنے کی خاطر اپنی ”صلاحیت ، استعداد اور مہارت“ کا بھر پوراستعمال کرتی ہے چنانچہ وہ انہیں کبھی ”مقابلے“ میں مار دیتی ہے اور کبھی بے گناہی کے ”جرم“ میں گرفتار کر کے تفتیش کے نام پر مار مار کر مار دیتی ہے۔یوں غریب کے ہاں بچوں یا نوجوانوں کی تعداد میںجب کمی واقع ہوتی ہے تو”خوشحال گھرانہ“ منصہ¿ شہود پر ابھرتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ٹارگٹ کلرز بھی زیادہ تر غریبوں اور بے یار و مددگارہستیوں کو گاہے بگاہے اپنا ہدف بناتے رہتے ہیں اورپولیس کو ”عوامی“ تعاون میسر آتا رہتا ہے ۔ یہ درحقیقت ملک میں ”خوشحالی“ لانے کا منصوبہ ہے۔ جہاں تک ان” انگریزی گو“ہستیوں کا تعلق ہے تو یہ انگلش میڈیم اسکولوں سے ایچ ا یس سی کرنے والے وجود ہوتے ہیں۔یہ عام جھام بچے نہیں ہوتے بلکہ امیر والدین کے چشم و چراغ ہوتے ہیں ۔یہ صاحبزادے اور صاحبزادیاںکہلاتی ہیں۔یہ لوگ چونکہ ”خوشحال گھروں “میں ہی پیدا ہوتے ہیں اس لئے ان کے گھرانوں کو ”خوشحال“بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔اس لئے ان کی تعداد میں کمی کاکوئی سرکاری یا غیر سرکاری منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا ان کی حفاظت کےلئے منصوبہ سازیاں کی جاتی ہیں۔ان صاحبزادوں یا صاحبزادیوں کی جان و مال حفاظت کےلئے خاص طور پر تربیت یافتہ سرکاری اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا ٹارگٹ کلر ان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کا خواب بھی دیکھے تو اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیاجاتا ہے۔ان کے بارے میں سرکاری حلقے عوام کو گاہے بگاہے باور کراتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ان لوگوں پر فخر ہے ۔ان شخصیات کو ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کےلئے ناگزیر قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ ملک و قوم کا” اثاثہ “ لوٹ لیں تو بھی انہیں قوم و ملک کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے ۔ان لوگوں کو پہچاننا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔انکی شناخت کےلئے ماہرینِ ”پروٹوکولیات“ نے بعض اہم نکات بیان فرمائے ہیںجو یہاں قارئین کی آگہی اور فراست و دانش کی نذر کئے جا رہے ہیں: 
سب سے پہلی پہچان ان لوگوںکی یہ ہے کہ یہ اپنا مدعا خالص انگریزی میں تو بیان کر سکتے ہیں تاہم خالص اردومیںایک جملہ بھی مکمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کی غالب اکثریت بسوں اور ویگنوں کے دھکوںنیز رکشوں، چنقچیوں اور سا ئیکلوں پر سفرسے بالکل ہی ناآشنا ہوتی ہے۔ تیسری پہچان یہ کہ جب بھی وہ اپنے ”خوشحال گھرانے“ سے باہر نکلتے ہیں تو تنہا نہیں بلکہ پولیسی حصارمیں ہوتے ہیں۔ان کی کارکے شیشے ویشے بھی اکثر سیاہ ہوتے ہیں۔ اس کار کے آگے اورپیچھے سرکاری اہلکاروں کی گاڑیاں ہوتی ہیں جن میں وہ عام انسانی سمجھ سے بالا قسم کی بندوقیں تھامے اور ان کی نال لوگوں کی طرف کئے انتہائی چوکسی کے عالم میں چاروں جانب گھورتے تیز رفتاری سے”شوں“ کر کے گز رجاتے ہیں۔سڑک پر موٹرسا ئیکلوں، بسوں اور چنقچیوں میںرُلنے والے انہیں دیکھ کر سہم جاتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ان ”چوکس محافظوں“ کوکوئی غلط فہمی ہوجائے اور وہ ”قیمتی ہستی“ کا تحفظ یقینی بنانے کے نام پر اپنی ”دہشتناک بندوق “ سے ہم پر گولی چلا دے اورہم ٹوٹے تھرمامیٹر کے پارے کی طرح سڑک پر بکھر جائیں۔
ان ہستیوں کی چوتھی پہچان یہ ہے کہ ان کے لبوں کی جنبش گاہے بیان اور گاہے فرمان کے ضمن میں آتی ہے۔یہ لوگ باتیں سنتے نہیں بلکہ ”باتیں سناتے“ ہیں۔ ان کی 5ویں اور اہم پہچان یہ ہے کہ یہ ہستیاں ”انٹرویو “ دیتی توہیں مگرکسی کا انٹرویولینے میں کبھی ملوث نہیں ہوتیں۔ ابلاغی ذرائع کسی بھی نوعیت کے ہوں، وہ ان ہستیوں سے انٹرویو لینا اپنے لئے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں کیونکہ انٹرویوکسی بھی ہستی کی ایسی ”دروں بینی“ہے جس میں اس شخصیت سے وہ کچھ دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو وہ عام گفتگو میں بیان نہیں فرماتی یا اسے بیان کرنے سے گریز فرمانا ضروری سمجھتی ہے۔ انٹرویو کے دوران اس انداز سے سوال کئے جاتے ہیں کہ وہ شخصیت اپنے دل کی باتیں زبان پر لے آتی ہے اور سوال کرنے والی یا سوال کرنے والا خوشی کے مارے بغلیں بجاتے ہوئے چلانے لگتا ہے کہ پوچھ لیا، پوچھ لیا، رازوں سے پردہ اٹھ گیا، پوشید ہ امور بے نقاب ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔ اس بے نقابی کی اطلاع”بریکنگ نیوز“ کے زیر عنوان جس ٹی وی چینل پر پہنچتی ہے ، اس کے ناظرین کی تعداد میں ”بے دھڑک“ اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہم چونکہ طباعتی ابلاغ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ہم بصد افتخار یہ کہنے کی جسارت کررہے ہیں کہ ہم نے متعدد ہستیوں کے انٹرویو لئے ہیں جن میں شاعر، ادیب، سائنسداں، ڈاکٹر، پروفیسر،امیر، غریب،فن کار، بے کار، گلوکار، اداکار، سب ہی شامل ہیں مگر یقین جانئے ہمیں”خوشگواراذیت“ کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں کسی سیاسی ہستی کا انٹرویو لینا پڑ جائے ۔یہ بات ہمیں اس لئے یاد آئی کیونکہ ہم نے حال ہی میں ایک ”سیاستدانی“ کا انٹرویو لیا ہے ۔آئندہ اسکی روداد سنانے کےلئے ہی ہم نے اپنے قارئین کو ناگزیر معلومات سے بہرہ ور کیا ہے ۔ وہ ”سیاستدانی“ بلا شبہ ان ہستیوں میں شامل ہیںجن کے تحفظ کےلئے سرکاری انتظامات کئے جاتے ہیںاور جو”کم بچے خوشحال گھرانہ“ جیسے سرکاری ”نعرے “کے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ ان پر تو صاحبانِ اختیار ”زبانی فخر“ کرتے ہیں۔
******

شیئر: