Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان میں ”جہادی “ تحریکیں .... مختلف وژن

علی العمیم ۔ الشرق الاوسط
قسط 2
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثر و نفوذ پختہ ہوجانے پر فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان اب دارالسلام نہیں رہا بلکہ دارالحرب ہوگیا ہے۔ انکا یہ فتویٰ ایسا ہے جس کی ماضی میں بھی نظیر ملتی ہے۔ جلال السعید الحفناوی اپنی تحقیق میں جس کا عنوان ”الجماعہ المسلمہ فی الہند“ ہے ”اسلام اور استعمار....جدید تاریخ میں جہاد کا عقیدہ“نامی کتاب کے مصنف ریڈولف پیٹرز کے حوالے سے تحریر کیا ہے ۔
جب مرہٹوں کی سلطنت نے 18ویں صدی عیسوی میں دارالاسلام ہند کے وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کیا تو اس وقت کے علماءنے ہندوستان کو دارالاسلام ہی قرار دیا تھا۔ اسکی اس حیثیت کی نفی نہیں کی تھی البتہ ہندوستان پر انگریزوں کا ناجائز قبضہ مرہٹوں کے اقتدار سے مختلف تھا۔ مرہٹوں نے ہندوستان کے سماجی نظام میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی تھی۔ مرہٹے بڑے طاقتور تھے۔ انہوں نے جنوبی ہند میں اپنی ریاست قائم کی تھی۔ وہ ہندو مت کے قائل تھے۔ انہیں ہندو مت کے پیرو کاروں کے یہاں نچلے طبقے میں شمار کیا جاتا تھا۔ 17ویں صدی عیسوی میں مرہٹے سیاسی و عسکری طاقت کے طور پر ابھرے تھے۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی کے فتوے کے تناظر میں نویں صدی عیسوی کے شروع میں جہاد، ہجرت اور جزیہ کی تحریکیں ابھریں۔ سلطان اورنگزیب نے جزیہ کا نظام بحال کیا تھا جبکہ انکے پیشرو سلاطین نے جزیہ کا نظام کالعدم کردیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز کے فتوے پر انگریزوں کے نافذ کردہ جدید قوانین کے جواب میں قرآن پاک میں مذکور حاکمیت کی آیتوں کا غلغلہ بلند ہوا۔ غیر مسلموں سے برا¿ت اور اسلامی قوانین و ضوابط سے وفاداری کے نعرے لگائے گئے۔ 
شاہ عبدالعزیز کے فتوے کی بنیاد پرجہادی مذہبی تحریکیں قائم ہوئیں۔ ا نکا عقیدہ تھا کہ اب جہاد کی گھڑی آچکی ہے۔ ان میں سرفہرست شاہ احمد بن عرفان بریلوی کی تحریک جہاد کو مانا جاتا ہے۔ان کے استاد شاہ عبدالعزیز دہلوی نے انگریزوں سے جہاد کی دعوت دی تھی لیکن شاہ احمد عرفان بریلوی نے پنجاب میں سکھوں کے خلاف جہاد شروع کیا۔ سکھوں پر بعض فتوحات کے بعد انہوںنے محدود مدت کیلئے اسلامی ریاست قائم کی۔ سکھوں نے انہیں اور ان کے رفیق جہاد اسماعیل دہلوی کو بھی قتل کردیا۔اسماعیل دہلوی شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے بھانجے تھے۔ انہیں 1831ءکے دوران بالا کو ٹ کے معرکے میں شہید کیا گیا۔ بعض مسلم فوجیوں کی غداری انکے قتل کا باعث بنی تھی۔ انکے پیرو کار 1849ءکے دوران سکھوں کے بجائے انگریزوں کےخلاف برسرپیکار ہوگئے تھے۔ وہ 1872ءتک انگریزوں کے خلاف جہادی معرکے لڑتے رہے۔
کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ان تحریکوں کے علمبردار وہابی کہلاتے تھے۔ انہیں یہ نام اسلئے دیا گیا تھا کیونکہ وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب سلفی کی دعوت سے متاثر تھے اور محمد بن عبدالوہاب عرب تھے۔ انکی تحریک عرب ملک سے برپا ہوئی تھی۔ کمال تو یہ ہے کہ مستشرقین ، مسلم اسکالر اور سیکولر محققین کا خیال بھی یہی ہے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ تحریکوں کی بابت یہ دعویٰ کہ یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سلفی تحریک سے متاثر تھیں متفقہ لگتا ہے۔ میرے مطالعے کی روشنی میں اسکی تردید صرف 2 اسکالرز نے کی ہے ۔ ان میں سے ایک تو ہندوستان کے علامہ ابو الحسن ندوی ہیں اور دوسرے پاکستان کے لبرل مسلم اسکالر مظہر الدین صدیقی ہیں۔ اول الذکر نے کوئی وجہ بیان کئے بغیر تردید کی ہے جبکہ ثانی الذکر نے اسکی ایک وجہ بھی بتائی ہے کہ میں بھی ان دونوں کے مسلک پر ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تحریکو ں کے علمبردار، شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سلفی تحریک سے متاثر نہیں تھے۔ اس دعوے کی شروعات ہندوستان کی دینی و اسلامی ذہنیت رکھنے والی شخصیات کی طرف سے ہوئی تھی۔ پھر انگریزوں نے اسے اپنایا اور بڑے پیمانے پر رائج کیا۔ دعوے کی تائید اس وجہ سے ہوگئی کہ مذکورہ تحریکوں اورشیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک میں مختلف مماثلتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مذکورہ تحریکوں کے علمبردار ایک ہی سال حج پر آئے تھے یا ان میں سے بعض کئی برس تک حرمین شریفین میں قیام کرکے ہندوستان واپس گئے تھے اور وہاں انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز کیاتھا۔ 
ہندوستانی تحریکوں کا سلفی تحریک سے متاثر نہ ہونے کا دعویٰ آئندہ سطور میں ثابت کیا جائیگا۔
(باقی آئندہ)
 
 

شیئر: