Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شدت پسندوں کی بحالی کے لیے کوشاں سابق جہادی

شام میں دولت اسلامیہ کے لیے کام کرنے والی سابق جہادی تانیہ جویا نے اپنی زندگی شدت پسندوں کو دوبارہ سے معاشرہ کا حصہ بنانے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تانیہ شدت پسندوں کو دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بنانے کے عمل سے بخوبی واقف ہیں۔
واشنگٹن میں منعقد ایک تقریب کے میں شدت پسندی کے خاتمے سے متعلق پروجیکٹ پیش کرتے ہوئے تانیہ جویا نے کہا کہ ’میرا مقصد ہے کہ یہ لوگ اپنے کیے ہوئے پر پشیمان ہوں اور ان کو تربیت دوں کہ یہ اچھے شہری بنیں اور انہیں جیلوں سے رہا کیا جائے تاکہ یہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔‘
تانیہ جویا لندن میں ایک بنگلہ دیشی گھرانے میں پیدا ہوئیں، تانیہ کو نسل پرستی کا سامنا تھا اور وہ لندن کے معاشرے کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

تانیہ جویا کے شوہر 2013 میں انہیں بچوں سمیت ان کی مرضی کے خلاف شام لے گئے تھے۔(فوٹو:اے ایف پی)

نیویارک میں 11 ستمبر کے واقعے اور اسامہ بن لادن کی جانب سے جہاد کے اعلان کے بعد تانیہ جویا 17 برس کی عمر میں بنیاد پرست بنیں۔
2004 میں انہوں نے ایک امریکی شہری یحییٰ البحرومی سے شادی کی جو مسلمان ہوا تھا۔ انہوں نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کی اور چاہتی تھیں کہ ان کے تینوں بچے دولت اسلامیہ کے سپاہی بنیں۔
2013 میں ان کے شوہر انہیں بچوں سمیت ان کی مرضی کے خلاف شام لے گئے لیکن جویا نے امریکی حکام کو اپنے شوہر کے بارے میں بتایا اور تین ہفتوں بعد واپس امریکہ آ گئیں۔
تانیہ جویا اپنے شوہر کے آبائی علاقے ٹیکساس میں مقیم ہیں، یہاں سے انہوں نے شدت پسندی سے دوری اختیار کی اور اپنی زندگی بدلی، طلاق لی اور دوبارہ شادی کی۔
جویا کا سابق شوہر دولت اسلامیہ کے لیے انگریزی زبان میں پروپیگنڈا کرتا تھا، وہ 2017 میں ایک جھگڑے کے دوران ہلاک ہوا۔
اے ایف پی کے مطابق دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد بہت سے جہادیوں کی بیویاں اور بچے واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے، جویا نے محسوس کیا کہ ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

’دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد بہت سے جہادیوں کی بیویاں اور بچے واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے‘۔ (فوٹو:اے ایف پی)

جویا کے مطابق یہ بہت ضروری تھا کہ ان کو بنیاد پرستی سے نکالا جائے اور ان کی بحالی کے لیے کام کیا جائے۔
جویا کہتی ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں وہ تمام محرکات سمجھائے جائیں جنہوں نے انہیں شدت پسندی کی طرف راغب کیا، جب ایک مرتبہ انہیں یہ سب دلائل کے ساتھ سمجھا دیا گیا تو وہ اسے ایسے ہی قبول کرلیں گے جیسا کہ میں نے کیا ہے۔‘
جویا مشرق وسطیٰ سے باغیوں کی واپسی کی بھی حمایت کرتی رہی ہیں تاکہ ان کا اپنے ملک میں ہی فیصلہ ہوسکے۔
جویا نے شمیم بیگم کی واپسی کے لیے مہم میں بھی حصہ لیا تھا جنہوں نے 15 سال کی عمر میں داعش میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اب وہ برطانیہ واپس جانے کی خواہشمند تھیں تاہم، برطانیہ نے انہیں ناگزیر وجوہات کی بنا پر شہریت سے محروم کر دیا تھا۔
جویا ’شدت پسندی سے بچاؤ‘ سے متعلق پروگرام (پی وی ای) میں بھی حصہ لے رہی ہیں جس کا مقصد نوجوانوں کے لیے ورکشاپس منعقد کروانا ہے جہاں ان سے بات کی جا سکے تاکہ انتہا پسند خیالات کی جانب مائل ہونے سے پہلے ہی انہیں بچالیا جائے۔

شیئر: