Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں گرفتار دولت اسلامیہ کے جرمن شدت پسندوں کے والدین کا برلن میں مظاہرہ

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے شام میں گرفتار شدت پسندوں کے جرمن والدین اور رشتہ داروں نے برلن میں وزارت خارجہ  کے باہر مظاہرہ کیا اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان شدت پسندوں کے بچوں اور بیگمات کو جرمنی واپس لایا جائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین میں سے بعض نے پوسٹر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر یہ نعرے درج تھے 'بچے ذمہ دار نہیں'۔ بعض پوسٹرز پریہ نعرے بھی درج تھے کہ ' معصوم جرمن بچے مر رہے ہیں اور ریاست صرف دیکھ رہی ہے'
شام میں پیدا ہونے والے تین اور ایک سالہ بچوں کی دادی انتسار عتابہ کا کہنا تھا کہ'میں چاہتا ہوں کہ میرے پوتے شام سے نکل کر ہیمبرگ واپس آئیں اور نارمل زندگی گزاریں، نرسری جائیں، میں انہیں گلے لگا سکوں اور ان سے محبت کر سکوں۔'
مظاہرے میں شریک 55 سالہ شاوانی نے مطالبہ کیا کہ میرے تین، چار اور پانچ سال کے تین پوتوں کو واپس لایا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کہ کیوں ان کے پوتوں کو ان کے والدین کے غلط کاموں کا ذمہ دار ٹھرایا جائے؟ ان کا قصور کیا ہے میری سمجھ میں نہیں آرہاہے۔
جرمنی کی وزارت داخلہ کے مطابق جرمن جہادیوں کے 59 بچے ابھی تک شام میں ہیں۔

گزشتہ مہینے شام میں آئی ایس کے آخری ٹھکانے کے ختم ہونے کے بعد شام میں قید غیر ملکی جہادیوں اور انکے خاندانوں کا مستقبل ایک اہم ایشو بن کر سامنے آیا ہے۔
خیال رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے یورپی اتحادیوں پر حالیہ دنوں میں زور دیا تھا کہ وہ عراق اور شام میں قید دولت اسلامیہ کے اپنے ممبر شہریوں کو واپس لے لیں۔
تاہم بہت سارے پورپی ممالک نے ٹرمپ کے مطالبہ کا مثبت جواب نہیں دیا۔
اگریہ ممالگ اپنی شہریوں کو واپس نہیں لیتے تو انہیں شام اور عراق میں لمبی مدت کے لیے جیلوں اور کیمپوں میں قید رکھنا پڑے گا تاہم اس پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے۔
جرمنی نے اپریل میں عراق میں قید دولت اسلامیہ سے منسلک اپنے شہریوں کے بچوں کو واپس لینا شروع کر دیا تھا۔
جرمنی کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انہیں شمالی شام میں قید جرمنی کے شہریوں کے بارے میں علم ہے۔ لیکن دمشق میں جرمنی کے سفارتخانے کی بندش کی وجہ سے ان شہریوں تک قونصلر کی رسائی نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود حکومت شہریوں کی واپسی کی کوششیں کر رہی ہے۔

شیئر: