Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیراعظم کا دورہ امریکہ افغانستان کے لیے تھا‘

وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ امریکہ افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تھا ۔
’وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے وقت ایسا کوئی ایشو ہی نہیں تھا کہ کشمیر سے متعلق بات کی جائے یا کشمیر پر بحث کی جاتی۔ وہ (وزیراعظم) تو افغانستان میں امن کے حوالے سے بات کرنے گئے تھے جو پاکستان کا ذمہ دارانہ کردار ہے۔‘
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کہ 17 سال بعد افغانستان میں امن ہونے جا رہا ہے اور اس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ پہلی دفعہ دنیا نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا ، اس سے پہلے دنیا پاکستان کو افغانستان میں مسئلے کی وجہ سمجھتی تھی۔

فردوس عاشق اعوان کے مطابق مریم نواز نیب کی حراست  سے پہلے بھی مجرم تھی اور مجرم کے انٹرویوز لائیو ٹی وی پر نہیں آیا کرتے۔ فوٹو اے ایف پی

’عمران خان اور آرمی چیف کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کو افغانستان میں مسئلےکے حل میں اہم کردار کو تسلیم کیا جارہا ہے۔‘
وزیراعظم کی معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جب’افغانستان کے مسئلہ پر اکٹھے ہوئے تو خطے کی امن کی بات ہوئی تو اس میں وزیر اعظم نے کشمیر کا ذکر کیا۔ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر خطے میں امن اور استحکام نا ممکن ہے کیونکہ یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑا تنازع ہے۔ اور اس میں امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کی، پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے وزیراعظم کے موقف کو تسلیم کیا۔

مریم نواز کے انٹرویوز کون رکواتا رہا؟

فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے انٹرویوز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’مریم نواز نے جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچ گئی ہیں۔ نیب کی حراست میں کسی کا انٹرویو تو نہیں ہوتا اگر باقی کسی ملزم تک کیمرے کی پہنچ نہیں تو راج کماری کے لئے خصوصی قانون نہیں بن سکتا۔

 

نیب کی حراست سے پہلے انٹرویوز کون روکتا تھا ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز نیب کی حراست  سے پہلے بھی مجرم تھی اور مجرم کے انٹرویوز لائیو ٹی وی پر نہیں آیا کرتے ۔ پیمرا ایک ریگولیٹر ادارہ ہے اور ان کا کام ہے اپنے ضابطہ کار پر عمل درآمد کروانا اور اس پر عمل ہوا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ قانون کی بالادستی قائم ہو۔‘

ماضی میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان روابط کا فقدان

سول اور عسکری قیادت کے درمیان تعاون کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں عسکری اور سول قیادت کے درمیان روابط کا فقدان تھا، قومی مسائل اور ذاتی مفادات میں ترجیحات میں فرق تھا۔‘

فردوس عاشق اعوان کے مطابق ماضی میں عسکری اور سول قیادت کے درمیان روابط کا فقدان تھا۔ فوٹو اے ایف پی

ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی لیکن اب قومی مفادات ہی حکومت کی ترجیح ہے جس کی وجہ سے عسکری قیادت سویلین حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسامہ بن لادن ، سلالہ چیک پوسٹ اور میوگیٹ کے واقعات رونما ہوئے جن کا تعلق افواج پاکستان اور سویلین حکومت سے تھا لیکن بحیثیت ترجمان عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان خلا نہیں پیدا کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ افواج اس ملک کا حصہ ہیں اور ملک کی وقار اور تشخص کے لیے جان بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ ’ان کو سپورٹ کرنا اور ساتھ لے کر چلنا ہماری طاقت ہے اور اسے کمزور نہیں بننا چاہیے۔ یہی اس حکومت کی طاقت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

 

کرتار پور راہداری کھولنے کے موقع پر کیا نریندر مودی کو دعوت دی جائے گی؟

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس بارے میں فیصلہ حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ ’اس وقت نریندر مودی کشمیر میں مسلمانوں کا قاتل بن کر ہٹلر کا کردار ادا کر رہے ہیں ، ہم کشمریوں کے خون کے ساتھ غداری نہیں کر سکتے ۔ ہم کشمیریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ضامن ہیں اس کے بعد دیگر چیزیں آئیں گی۔
فردوس عاشق اعوان نے عسکری قیادت کے حوالے سے بتایا کہ ’پاکستان مخالف جو ممالک یا  پس پردہ عناصر کام کر رہے ہیں ان کے خلاف عسکری قیادت کا موڈ جارحانہ ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی  اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے عسکری قیادت وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔  

شیئر: