Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: ٹرمپ کی پھر ثالثی کی پیش کش

ٹرمپ کہتے ہیں مذاکرات اور حملے ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے، تصویر: اے ایف پی
پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کا فیصلہ انہوں نے خود کیا ہے، اس بارے میں انہوں نے کسی سے مشاورت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو کیمپ ڈیوڈ آنے کی دعوت دینا مکمل طور پر میرا اپنا فیصلہ تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان نے مذاکرات کے دوران بھی حملے جاری رکھے، بات چیت اور حملے ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے، کابل میں جمعرات کو حملے میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہوا۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات ختم ہو چکے۔

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان سے درست وقت پر نکلیں گے، تصویر: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن درست وقت پر نکلیں گے‘۔ اے ایف پی اور امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات ’ختم ہوچکے‘۔افغان طالبان سے خفیہ مذاکرات کی منسوخی کے بعد دوبارہ جنگ کی حمایت کر رہا ہوں۔

 

افغانستان میں طالبان سے مذاکرات اور امریکی فوج کو 18 برس سے جاری طویل جنگ سے نکالنے سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات ختم ہوچکے ۔’ ختم ہو چکے۔‘ جہاں تک میرا تعلق ہے ’یہ ختم ہو چکے‘۔
 صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو ہفتے قبل جتنا تناؤ تھا اب نہیں ہے، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر مسئلہ کمشیر پر ثالثی کی پیش کش کی، ان کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ممالک کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
 قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ ہم افغانستان میں بطور پولیس مین خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ہمارے عظیم فوجیوں کا کام تھا جو دنیا کے بہترین فوجی ہیں۔
 ٹرمپ نے ٹویٹ میں مزید کہا کہ’ ہم گذشتہ چار دن کے دوران اپنے دشمن کو پچھلے دس برسوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ  بے دردی  سے ماررہے ہیں‘۔
 گذشتہ روز امریکی وزیر خارجہ ما ئیک پومپیو نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے محض 10 روز میں ایک ہزار سے زائد طالبان کو ہلاک کیا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی ان کا فیصلہ ہے، تصویر: اے ایف پی

 روئٹرز کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میک کینزی کا کہنا ہے کہ ممکن ہے امریکی فوج طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں آپریشن تیز کردے۔
باگرام ایئربیس پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا کہ یقینی طور پر ہم خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں۔
 واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ امن مذاکرات کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت کے باعث معطل کیے گئے۔ طالبان نے جھوٹے مفاد کے لیے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ میں ان کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات بھی فوری طور پر منسوخ کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اب طالبان اپنا رویہ تبدیل کر لیں گے اور طے شدہ باتوں پر عمل کریں گے۔
امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’طالبان کے اپنا رویہ تبدیل کرنے کے بعد بات چیت سے یہ معاملہ حل ہو جائے گا، ہمیں ایک اہم اور پائیدار معاہدے کی ضرورت ہے۔‘
پومپیو کے مطابق اگر طالبان امن مذاکرات کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں پر عمل نہیں کرتے تو صدر ٹرمپ دباؤ کم نہیں کریں گے اور امریکہ افغان سکیورٹی فورسز کی حمایت و تعاون جاری رکھے گا۔

افغان صدر نے مذاکرات منسوخ کرنے کے ٹرمپ کے اقدام کو سراہا ہے، تصویر: اے ایف پی

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا صرف باتوں نہیں بلکہ حقیقی شرائط اور زمینی حقائق کی بنیاد پر ہی ہو گا۔
افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات معطل کرنے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا تھا کہ طالبان کے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے رہیں گے۔
اس سے قبل افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں امریکی صدر کے اقدام کو سراہا گیا تھا۔
 افغانستان کے صدارتی دفتر کا کہنا تھا کہ ’اصل معنوں میں امن صرف تب ممکن ہے جب طالبان دہشت گردی روک کر حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔‘

شیئر: