اکیلے کوئی صنف نہ دنیا کا بوجھ اٹھا سکتی اور نہ زندگی کی گاڑی چلا سکتی ہے، سفیر پاکستان منظور الحق کی تحریر
ریاض میں پاکستان رائٹر زکلب ’’ لیڈیز چیپٹر‘‘ کی تقریب منعقد ہوئی جس میں سفیر پاکستان محترم منظور الحق نے خواتین کے حوالے سے ہی ایک مضمون پڑھا جو قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے :
خواتین کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا کہ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘ لیکن انہوں نے نہیں بتایا کہ مردوں نے اس تصویر میں کیا کام کیا ہے؟ ہو سکتا ہے انہوں نے تصویر کا خاکہ کھینچا ہو لیکن کیسا خاکہ اور کیسے رنگ؟ جب تصویر ہی مکمل نہ ہو۔ اقبال نے خودہی تو کہا ہے کہ:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فَیکون
لیکن تصویرِ نا تمام میں بھی تو رنگ بھرا جا سکتا ہے اور اگر خوبصورتی سے بھرا جائے تو ادھوری تصویر بھی اچھی لگتی ہے۔ویسے کائنات کے حُسن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے حُسن وجمال کو خواتین نے چار چاند لگائے ہیں۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ خواتین رنگوں کے انتخاب اور امتزاج میں مردوں سے کئی گنا آگے ہیں۔ اگر ملبوسات کے رنگوں کی بات کی جائے تو مرد اپنے لباس کیلئے چند ہی رنگوں کو اپنا سکے ہیں جبکہ خواتین کے ملبوسات میں رنگوں کی ایک حَسین اور وسیع دنیا نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ تصویرِ کائنات اور روزگارِ حیات میں مرد وزن دونوں کا حصہ ہے اور ان میں اکیلے کوئی صنف نہ دنیا کا بوجھ اٹھا سکتی اور نہ زندگی کی گاڑی چلا سکتی ہے۔
مشہور مقولہ ہے کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ اگر دونوں پہئے ساتھ دیں تو گاڑی چلے گی ورنہ رُک جائے گی یا رُک رُک کر چلے گی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ گاڑی کونسی ہے؟ دو پہیوں والی گاڑی توسائیکل یا موٹر سائیکل ہی ہو سکتی ہے۔
ویسے تو رکشے کے بھی تین پہئے ہوتے ہیں اور عام گاڑیوں کے کم از کم چار ہوتے ہیں اور جن گاڑیوں کے چار پہئے ایک ساتھ چل سکتے ہیں یعنی فور وھیلر وہ مضبوط گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ہر طرح کے دشوار گزار راستوں پر کیچڑ میں، چڑھائی اور پہاڑوں پر چڑھنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ محاورہ اتنا پرانا ہو کہ انسان نے ابھی بیل گاڑی ہی ایجاد کی ہو۔ جو بھی ہے، بات دو پہیوں اور چار پہیوں کی گاڑی کی نہیں۔
بات زندگی کی گاڑی کی ہے جسے مرد اور عورت دونوںساتھ کھینچتے ہیں تو زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اسی طرح تصویر کائنات میں رنگ کی بات بھی محاورتاً کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال کے شعر کا دوسرا مصرع بھی ملاحظہ کیجئے ، کتنی معنی خیز بات کی ہے:
وجود زن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
ہمارے گرد وپیش اورمعاشرے میں جو نرمی، حلاوت، خوش گفتاری، برداشت، صبر اور قربانی جیسے خوبصورت جذبے ہیں ان میں خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ جن معاشروں میں خواتین کا اثر و رسوخ زیادہ رہا ہے وہاں جنگ و جدل کے واقعات کم رونما ہوئے ہیں۔ آج ہم جب متشدد رویوں میں خواتین کا ذکر سنتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم توقع نہیں رکھتے کہ خواتین میں جن کی طبیعت میں نرمی اور حلاوت ہے، سختی اور تلخی بھی آئے گی۔ مجھے ایک شاعرہ کی بات جو انہوں نے ایک مشاعرے کے دوران تخریب کاری کی مذمت کرتے ہوئے کہی تھی، نہیں بھولتی کہ کوئی ایک ماں کے دل سے پوچھے کہ اس نے اپنا لخت جگر کس مشکل سے اور کتنی امیدوں سے پالا تھا اور جب جوان ہوا تو ایک متشدد سوچ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مامتا کا جذبہ انسان کا عظیم سرمایۂ حیات ہے ۔ماں کی بے پناہ محبت کو علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
انور مسعود کی نظم ’’امبڑی‘‘ جو ایک سچے واقعے پر مبنی ہے، اس میں اس عظیم جذبے کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ ایک بیٹا اپنی ماںپر تشدد کرتا ہے اور گھر سے نکل جاتا ہے۔ماں بیٹے کے اسکول کے ساتھی کے پاس جاتی ہے اور اس کے ہاتھ بیٹے کے لئے پراٹھے اور انڈوں کا حلوہ بھجواتی ہے۔ وہ پریشان تھی کہ بیٹا کچھ کھائے پئے بغیر گھر سے چلا گیا ہے۔ ایسا ایک ماں ہی کر سکتی ہے جو ایک عورت ہے۔ ماں تو ایک جذبے کا نام ہے ،رشتے کا نہیں۔
اگر کرۂ ارض پر سے ماں کی محبت واپس لے لی جائے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ دنیا کتنی ادھوری اور کتنی اندھیری ہو جائے گی اور انسانی نسل کتنی عظیم نعمت سے محروم ہو جائے گی۔ انسانی رشتوں میں تقدیس واحترام کے جذبوں کی امین, خواتین کو جب بھی جہاں بانی اور جہاں آرائی کا موقع ملا وہ مردوں سے کسی طور پیچھے نہیں رہیں۔ وہ ملکہ نور جہاں کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے جس نے مغلیہ خاندان کی حکومت کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے قوت اور استحکام بخشا۔ ممتاز محل کی محبت نے دنیا کو’’تاج محل‘‘ دیا۔ شہزادی زیب النساء نے دیوانِ مخفی کی شکل میں فارسی ادب کو ایک بیش قیمت تحفہ دیا۔ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے شانہ بشانہ پاکستان کے حصول میں بھرپور کردار ادا کیا۔ رعنا لیاقت علی خان نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر اور ان کے بعد نئے ملک کی خدمت کی۔
اسی طرح کی شخصیت شائستہ اکرام اللہ کی بھی ہے جنہوں نے سفارتی میدان کے علاوہ سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور آج ان کی بیٹی شہزادی ثروت نے بھی فلاحی کاموں کا سلسلہ جاری رکھاہواہے۔ جہاں بانی کی فہرست میں محترمہ بینظیربھٹو کومسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ فلاح انسانیت کے میدان میں بلقیس ایدھی اپنے شوہر نامدار عبد الستار ایدھی کے ساتھ مل کر انسانیت کی بے مثال انداز میں خدمت کر کے دنیا کے لئے دوسری مدر ٹریسا بن گئی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے بہادری کی ایسی مثال قائم کی کہ اسے دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کاروباری دنیا میں کلثوم سیف اللہ ایک کامیاب بزنس وومن کے طور پہ جانی جاتی ہیں۔ اسی طرح بینکنگ کے میدان میں شمشاد اختر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک ،احسن طریقے سے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ سفارتی میدان میں بھی پاکستانی خواتین کی اچھی نمائندگی ہے۔
آج اقوام متحدہ کے مرکز نیویارک میں ملیحہ لودھی اور جنیوا میں تہمینہ جنجوعہ پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ دنیائے ادب کے افق پر ہمارے ہاں کی خواتین قلمکار، ستاروں کے ایک خوبصورت جھرمٹ کی طرح جگمگا رہی ہیں ۔اس کہکشاں کے تابندہ نجوم میں بانو قدسیہ، فاطمہ ثریا بجیا، پروین شاکر، کشور ناہید، حسینہ معین، ادا جعفری، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، ناہید قاسمی، فہمیدہ ریاض، زہرہ نگاہ، بشریٰ رحمان، زاہدہ حنا، نوشی گیلانی، شبنم شکیل، پروین فنا سید، ثمینہ راجہ، الطاف فاطمہ اورعصمت پروین قابل ذکر نام ہیں۔ سعودی عرب میں ادب کی دنیا میں سر گرم عمل خواتین میں قدسیہ ندیم لالی دمام سے، عنبرین فیض اور تسنیم امجد ریاض سے قابل ذکر ہیں۔
آج پاکستان میں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ہمارے پارلیمان میں خواتین کی خاصی تعداد ہے۔ وہ سرکاری ملازمتوں میں بھی موجود ہیں اور نجی شعبے میں بھی مصروف عمل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طالبات کی کارکردگی اور نتائج انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ یہاں تک کہ کھیلوں کے میدان میں بھی ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والا وقت خواتین کو اور بھی متحرک اور فعال دیکھے گا۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ مملکت خداداد پاکستان کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گی اور زمانے کی جبیں پر ایسے ان مٹ نقوش ثبت کریں گی کہ دنیا خود اعتراف کرے گی کہ’’ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔