Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف: ’ڈیئر برادرز اینڈ سسٹرز‘

’میرے عزیز ہم وطنو‘ جیسے روایتی الفاظ کو انگریزی میں ڈھال کر ’ڈیئر برادرز اینڈ سسٹرز‘ سے 12 اکتوبر 1999 کو رات گئے قوم سے مخاطب ہونے والی شخصیت کے بارے میں زیادہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا۔ اس وقت میڈیا ہر گھر اور ذہن میں نہیں گھسا تھا، اس سے قبل حیران کن بات یہ ہوئی کہ چلتے چلتے یکدم ریڈیو اور پی ٹی وی کی نشریات رک گئیں اور پھر چلیں بھی تو یوں کہ ملی نغمے کم پڑ گئے۔
پھر افواہیں شروع ہوئیں جو گزرتے وقت کے ساتھ زور پکڑتی گئیں۔ رات کو تقریباً تین بجے ایک چہرہ ٹی وی سکرینز پر ابھرا اور وہ دور شروع ہوا جو اپنے اندر سیاسی، فوجی اور سول ہر طرح کے تلاطم لیے ہوئے تھا۔

پرویز مشرف کی ابتدائی زندگی

پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوا۔ وہیں ان کا بچپن گزرا، وہیں تعلیم حاصل کی. انہوں نے 19 اپریل 1964 کو پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ بھی لیا۔ اکتوبر 1998 میں منگلا کے کور کمانڈر تھے جب وزیر اعظم کی نظر کرم میں آئے۔

اکتوبر 1998 میں منگلا کے کور کمانڈر تھے جب وزیر اعظم کی نظر کرم میں آئے (فوٹو اے ایف پی)

سپہ سالاری کی جانب قدم

وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے فوری بعد چھ اکتوبر 1998 کو جنرل جہانگیر کرامت نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ آیا۔ اس وقت جنرل علی قلی خان اور خالد نور خان سینیئر ترین جنرلز تھے اور خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ ان میں سے ہی کسی ایک کو عہدہ سونپ دیا جائے گا تاہم ہونے کچھ اور جا رہا تھا۔
اسی روز ہی منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کو وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال نے فون کر کے پیغام دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف ان سے ملنا چاہتے ہیں، یوں پرویز مشرف وزیراعظم ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے جہاں ایک نیا عہدہ ان کا منتظر تھا، آٹھ اکتوبر 1998 میں انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔

سنہ 1999 میں انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا (فوٹو اے ایف پی)

اعلان لاہور

21 فروری 1999 کو ہونے والا یہ معاہدہ کافی اہمیت کا حامل ہے، اس سے قبل دونوں ملکوں کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے تجربے ہو چکے تھے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا، اس پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے دستخط کیے۔ اسی دورے کے دوران ہی انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی مشہور زمانہ ’اب جنگ نہیں ہونے دیں گے‘ نظم بھی پڑھی تھی۔
تاہم کارگل کی جنگ کے بعد یہ معاہدہ موثر نہیں رہا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان پہلی دراڑ اسی وجہ سے پڑی جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی اور کارگل تک پہنچی۔

نواز شریف کہتے رہے کہ کارگل محاز آرائی سے قبل آرمی چیف نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

 کارگل کی جنگ

انڈیا کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے کیے جانے کے تقریباً ایک سال تین ماہ بعد 1999 کو اچانک کارگل کی جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیری مجاہدین کارگل میں گھس گئے ہیں، تاہم کچھ روز بعد یہ محدود جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ جس میں دونوں ملکوں کا نقصان بھی ہوا، تاہم کچھ روز بعد وزیراعظم نواز شریف امریکہ پہنچے اور صدر بل کلنٹن سے ملاقات کے بعد کارگل سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا جس سے جنگ تو ختم ہو گئی تاہم ایک اور جنگ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان چھڑ گئی، اختلافات بڑھتے رہے۔
کارگل ایک متنازع ایشو اس لیے ہے کہ نواز شریف کہتے رہے کہ اس سے قبل آرمی چیف نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا تھا جبکہ سابق آرمی چیف آج تک اس پر مصر ہیں کہ سب کچھ وزیراعظم کی مشاورت سے ہوا تھا۔

12 اکتوبر کی شب رات گئے رات تین بجے پرویز مشرف نے کمانڈو وردی میں خطاب کیا (فوٹو اے ایف پی)

12 اکتوبر کی دھماکہ خیز آمد

اس روز آرمی چیف پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے۔ وزیراعظم جلسے سے خطاب کے لیے شجاع آباد پہچے تھے تاہم کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس سے قبل وہ آرمی چیف پرویز مشرف کو معطل کر کے اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاالدین کو آرمی چیف بنانے کے احکامات جاری کر چکے ہیں اور کاغذی کارروائی جاری تھی، جو پوری ہونے پر تقریباً چار بجے یہ احکامات جاری ہوئے، دوسری جانب اس وقت نواز شریف سٹیج پر خطاب کر رہے تھے کہ ایک سرکاری اہلکار نے ان کے کان میں کچھ کہا اور وہ تقریر مختصر کر کے فوری طور پر اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ ان کے پہچنے سے قبل ہی ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں آ چکی تھی۔ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان کا کنٹرول فوج نے سنبھالا گیا تو نشریات تعلطل کا شکار ہوئیں جس کے ساتھ ہی افواہیں گردش کرنے لگیں۔
ان دنوں موبائل نے پاؤں پاؤں چلنا شروع ہی کیا تھا تاہم اس کی سروس بھی معطل کر دی گئی اور یہ خبر باہر آنے تک کافی وقت لے گئی کہ ’آرمی نے ضیاالدین کو آرمی چیف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘
پھر خبر پھیلی کہ کراچی ایئرپورٹ کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا ہے اور پرویز مشرف جو سری لنکا سے واپس آ رہے تھے اور طیارہ فضا میں تھا، کو مبینہ طور پر وزیر اعظم کے حکم پر اترنے نہیں دیا جا رہا تاہم طیارہ بحفاظت اتر گیا۔
چند گھنٹوں بعد نشریات بحال ہونا شروع ہوئیں اور یہ خبر سامنے آئی کہ وزیراعظم کو گرفتار کر کے کسی گیسٹ ہاؤس منتقل کر دیا گیا ہے، ٹیلی فون بحال ہوتے ہی یہ خبر پھیل گئی کہ حکومت کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
رات تین بجے پرویز مشرف نے کمانڈو وردی میں خطاب کیا، بعدازاں نواز شریف کو جدہ بھجوا دیا گیا۔

جنرل مشرف نے صدارتی ریفرنڈم بھی کروایا (فوٹو اے ایف پی)

چیف ایگزیکٹو سے صدارت تک

اگلے چند روز میں پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے ساتھ منظر عام پر آئے اور صدر رفیق تارڑ کچھ ماہ ملک کے صدر رہے، جب انہیں سیاست کے سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ انہیں وافر مقدار میں اس وقت ملی جب مسلم لیگ ن کا حصہ رہنے والے چوہدری برادران نے ان کا ساتھ دینا شروع کیا اور مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی، اسی طرح پی پی سے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین اور پیٹریاٹ نکلیں، 2002 میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ق نے اکثریت حاصل کی، اسی اسمبلی سے وہ صدر منتخب ہوئے اور رفیق تارڑ کو گھر بھیج دیا گیا، اسی سال انہوں نے کامیاب صدارتی ریفرنڈم بھی کروایا۔

ہلکی پھلکی روشن خیالی

جنرل پرویز مشرف نے انگریزی بولنے کے بعد روشن خیالی کا ایک اور تاثر اس تصویر سے دیا جس میں انہوں نے دو چھوٹے کتے دونوں ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے وہ تمام اخبارات میں چھپی، وہ سگار پیتے اور موسیقی کے شوقین ہیں، ’ان دی لائن آف فائر‘ میں انہوں نے لکھا کہ وہ طبلہ بھی بہت اچھا بجا لیتے ہیں، ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ براہ راست موسیقی سن رہے ہیں اور رقص بھی کر رہے ہیں۔

پرویز مشرف کی کتاب خاصی مقبول ہوئی تھی (فوٹو اے ایف پی)

نائن الیون اور پاکستان

11 ستمبر 2011 کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملوں نے پاکستان پر اثر اس طرح ڈالا کہ اس نے افغانستان پر حملہ کرنا تھا اور پاکستان کی مدد درکار تھی، پرویز مشرف حکومت نے کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا اور امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دیا۔ امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا، اس سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوئیں جو 2007 میں لال مسجد آپریشن کے بعد عروج پر پہنچیں۔

نواز، شہباز کی آمد

نواز شریف اور شہباز شریف جدہ سے بیانات دیتے رہتے کہ وہ ملک واپس آئیں گے تاہم 2004 میں یہ بات اس وقت سچ ثابت ہو گئی جب اچانک شہباز شریف پاکستان پہنچے تاہم انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا گیا، اسی طرح 2007 میں نواز شریف بھی پاکستان آئے انہیں بھی واپس بھیجا گیا۔

نو مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غیر فعال کر دیا گیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

عدلیہ کے ساتھ ٹاکرا

پرویز مشرف کو اس وقت ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ گیا جب انہوں نے نو مارچ 2007 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غیر فعال کیا، اس پر وکلا نے ایک شدید قسم کی تحریک شروع کر دی اور افتخار محمد چوہدری نے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے انہیں 20 جولائی 2007 کو بحال کر دیا، تاہم تین نومبر کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر ججز کو نظربند کیا، اس کے بعد پھر سے وکلا کی تحریک نے زور پکڑ لیا۔

11 اکتوبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلسے میں خودکش دھماکے ہوئے جس میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے (فوٹو اے ایف پی)

بے نظیر بھٹو کی واپسی

بے نظیر بھٹو 1996 میں حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی جلاوطنی اختیار کر چکی تھیں تاہم بدلتی صورت حال نے پرویز مشرف کو بے نظیر کی مدد لینے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے بینظیر سے لندن میں ملاقات کی اور بعدازاں این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) جاری کیا جس کے مطابق پی پی قیادت پر قائم مقدمات ختم کر دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا اور واپسی پر 11 اکتوبر 2007 کو ان کے استقبالی جلسے میں خودکش دھماکے ہوئے جس میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 
تاہم بے نظیر بھٹو نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں کیونکہ جنوری 2008 میں انتخابات ہونا تھے، انہوں نے بھی عدلیہ کا ساتھ دیا، کچھ عرصہ بعد نواز، شہباز بھی وطن لوٹ آئے۔ 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کو ہلاک کر دیا گیا اور انتخابات کچھ ماہ کے لیے ملتوی ہوئے۔

نومبر 2007 میں انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیا (فوٹو اے ایف پی)

وردی اتارنا پڑ گئی

اکتوبر 2008 میں ہونے والے الیکشن میں پی پی کی حکومت بنی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلی ہی تقریر میں نظربند چیف جسٹس کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے، جس سے پرویز مشرف پر دبائو بڑھتا گیا اور نومبر میں انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیا اور چند ماہ بعد ہی صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، ان کے بعد آصف علی زرداری صدر بنے۔

نومبر 2013 میں حکومت نے ان کے خلاف آرٹیکل سکس کے تحت غداری کا مقدمہ دائر کیا (فوٹو اے ایف پی)

ن لیگ کا دور

صدارت سے استعفٰی دینے کے بعد پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے تاہم ان کے بیانات آتے رہتے کہ وہ واپس آئیں گے اور2013 کے انتخابات سے قبل وہ لوٹ آئے۔ الیکشن میں مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کی، نواز شریف وزیر اعظم بنے، نومبر 2013 میں حکومت نے ان کے خلاف آرٹیکل سکس کے تحت غداری کا مقدمہ دائر کیا، ان کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے تاہم طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، کئی ماہ وہ ہسپتال میں رہے، وہیں سے وہ ملک سے باہر چلے گئے تاہم ان کے خلاف کیس جاری رہا۔
گذشتہ دنوں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کا تذکرہ کچھ یوں کیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے  اور پھر 17 دسمبر کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو سزائے موت سنا دی۔  
 

شیئر: